• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے تو کبھی ایسا ہوا نہیں ہے کہ جو پانی پلوں کے نیچے سے گزر کر سمندر میں جاگرا ہے، اس پانی کو کوئی شخص واپس لا سکا ہو۔ پہلے تو کبھی ایسا ہوا نہیں ہے کہ جو وقت گزر چکا ہے، اس وقت کو کوئی شخص واپس لا سکا ہو۔ کہتے ہیں، جو بیت گیا، سو بیت گیا مگر، تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہونے جارہا ہے۔ گئے زمانوں کو واپس بلانے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ اب صرف عملدرآمد کی دیر ہے۔ آپ ناممکن کو ممکن ہوتا ہوا دیکھیں گے۔ آپ بجا طور پر پوچھ سکتے ہیں کہ ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے اگر تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں تو پھر عملدرآمد میں دیر کس بات کی ہے؟ بھئی آپ دیکھئے نا، گزرے ہوئے زمانے فلم یا وڈیو ٹیپ پر ریکارڈ نہیں ہوتے کہ جب جی چاہے چلا کر ماضی میں جھانکا جائے۔ گزرے ہوئے زمانے ہوا میں معلق نہیں ہوتے، تجوریوں اور صندوقوں میں بند نہیں ہوتے۔ گزرے ہوئے زمانے تاریخ کے اوراق میں رہتے ہیں۔ وہیں بستے ہیں۔ گزرے ہوئے زمانوں کا آپ تین طرح سے کھوج لگا سکتے ہیں۔ سب سے اول تاریخ، تاریخ مستند ہونی چاہئے۔ پسماندہ معاشروں میں تاریخ سے خوب چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے۔ ایسی فراڈیا تاریخ حکومتیں ہسٹری کمیشن جیسے ادارے ایجاد کر کے لکھواتی ہیں۔ ایسی توڑ مروڑ کر لکھی ہوئی تاریخ سے سوائے شرمندگی کے آپ کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔ اپنی مرضی اور مطلب سے تاریخ لکھوانے والی حکومتیں بھول جاتی ہیں کہ دنیا بھر میں تاریخ لکھی جاتی ہے۔ ان تاریخوں میں ہمارے جیسے ممالک اور ممالک کے حکمرانوں کا ذکر خیر بھی آتا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ گزرے ہوئے زمانوں کا مستند احوال آپ کو صرف مستند تاریخ کے اوراق سے مل سکتا ہے۔

دوئم، گزرے ہوئے زمانوں کے عروج اور زوال کی بازگشت آپ آثارِ قدیمہ میں محسوس کر سکتے ہیں۔ آثارِ قدیمہ عظمت رفتہ کی گواہی دیتے ہیں۔ بدگمان حکمراں آثار قدیمہ کا نام و نشان مٹانے کی حیثیت میں ہوتے ہیں مگر وہ آثارِ قدیمہ میں کسی قسم کا اضافہ یا رد و بدل نہیں کرسکتے۔ اس لئے بدگمان حکمراں آثار قدیمہ کی تاریخی اہمیت کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ اپنی بے التفاتی اور آثار قدیمہ کو مٹا دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ تیسرے، عجائب گھر یا عجائب خانے گزرے ہوئے زمانوں کی تاریخ اور ثقافت کی گواہی دیتے ہیں۔ گندے، بدبودار ٹائلٹ کے علاوہ عجائب خانوں کی خستہ حالی یا عدم موجودگی سے پسماندہ معاشرے کی نشان دہی ہوتی ہے۔ ماضی جیسے ماحول میں رچنے بسنے کے لئے آپ کے پاس اس دور کی مستند تاریخ ہونی چاہئے۔ اس دور کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے آپ کو آثار قدیمہ کو باریک بینی سے دیکھنا پڑے گا۔ اس دور کے معاشرے کے ثقافتی اور معاشرتی حالات کا پتا چلانے کے لئے عجائب خانہ میں محفوظ کی ہوئی اشیاء کا جائزہ لینا پڑے گا۔ خوش قسمتی سے یہ تین عناصر ہمارے ہاں موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حاکمِ وقت نے پاکستان کو ریاست مدینہ جیسا بنانے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ وہ ناممکن کو ممکن کرکے دکھائیں گے۔

میں نے کوئی بڑا دعویٰ نہیں کیا ہے۔ ہمارے حاکمِ وقت اپنے دور کے زبردست فاسٹ بالر رہ چکے ہیں۔ فاسٹ بالر غیرمعمولی رویوں، ارادوں اور وضع کے مالک ہوتے ہیں۔ کھیل سے ریٹائر ہوجانے کے بعد بھی فاسٹ بالر اپنے رویے میں فاسٹ بالر رہتے ہیں۔ فاسٹ بالر تین طریقوں سے بیٹس مین کو میدان سے باہر کردیتے ہیں۔ بیٹس مین کو کلین بولڈ کرکے فاسٹ بالر بے انتہا مسرت محسوس کرتے ہیں۔ جب فاسٹ بالر کسی بیٹس مین کو کلین بولڈ یا کیچ آئوٹ نہیں کرسکتے تب بیٹس مین پر بائونسروں کی بوچھاڑ کردیتے ہیں اور آخر کار اسے زخمی یا ادھ موا کرکے پویلین بھیج دیتے ہیں۔ اس رویے سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فاسٹ بالر کی ضد کے آگے اچھے اچھے بیٹس مین بے بس ہو جاتے ہیں۔ یہ باتیں میں نے آپ کو اس لئے بتائی ہیں تاکہ آپ محسوس کر سکیں کہ ہمارے فاسٹ بالر پاکستان کو ریاستِ مدینہ بناکر دم لیں گے۔ آپ یقین کریں، ہمارے فاسٹ بالر یہ معجزہ آپ کو کر کے دکھائیں گے۔

اس منصوبے پر نہایت دیانت داری اور احتیاط سے عملدرآمد ہونے جارہا ہے۔ ایک اندر کی بات میں آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ پاکستان گنجان آبادی والا ایک بہت بڑا ملک ہے۔ لہٰذا اس منصوبے پر مرحلہ وار عملدرآمد ہوگا۔ سب سے پہلے کراچی کو ریاستِ مدینہ جیسا بنایا جائے گا۔ کراچی کو اس لئے اولیت دی گئی ہے کیونکہ کراچی منی پاکستان ہے۔ منی پاکستان سے مراد ہے چھوٹا سا پاکستان۔ کراچی کمال کا شہر ہے۔ تقسیمِ ہند سے پہلے مسلمان، ہندو، سکھ، پارسی، یہودی، عیسائی، جین اور بدھ مت کے پیروکار کراچی میں رہتے تھے۔ ان کی اپنی اپنی عبادت گاہیں تھیں۔ کوئی کسی کے عقیدہ پر انگلی نہیں اٹھاتا تھا۔ وہ لوگ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کا احترام کرتے تھے۔ کوئی اپنے آپ کو برتر اور دوسرے کو کمتر نہیں سمجھتا تھا۔ نہ کوئی اکثریت میں ہوتا تھا اور نہ کوئی اقلیت میں۔ سب کے لئے یکساں قوانین اور حقوق ہوتے تھے۔ دنگا نہ فساد… آج کے شہر کراچی میں ننانوے فیصد مسلمان بستے ہیں۔ فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں دنگے فساد، مارا ماری، لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری نہ ہوتی ہو۔ ایسے شہر کو منی پاکستان کہتے ہیں۔ اور اب منی پاکستان ریاستِ مدینہ جیسا بننے جارہا ہے۔

تازہ ترین