جب ہم سیاست کے ’باغیچہ گل و گلزار‘ میں داخل ہوئے تھے تو استادوں نے کہا تھا کہ سب سے پہلے اخبار پڑھنا سیکھو کیونکہ اصلی خبر کہیں اندر دو تین سطروں میں چھپی ہوتی ہے اور شہ سرخیاں وہ ہوتی ہیں جو مروجہ نظام سے مستفیض ہونے والے آپ کو بتانا چاہتے ہیں۔ میدان سیاست کو خاردار کہنے کے بجائے ’گل و گلزار‘ اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ بغیر کسی حاصل، معاوضے اور صلے کے انسان کو اپنے آپ میں مگن ہونے کی کیفیت سے آشنا کرتی ہے۔ اپنے آپ میں مگن ہونے کا مطلب ہے کہ اردگرد کے طمع سے آلودہ افعال کی نفی کر دی جائے۔ اسے ہی صوفیاء مقامِ عشق قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ قسمت والوں کے ہی نصیب میں آتی ہے اور علامہ اقبال بھی ایسی باطنی ہم آہنگی کو جنت سمجھتے ہیں۔ ہم درمیانے طبقے سے آنے والے ایسی کیفیت جوانی کے طوفان میں ہی تھوڑی دیر نبھا پاتے ہیں کیونکہ پھر ’روٹی کپڑا اور مکان‘ آڑے آ جاتا ہے لیکن اس کیفیت کا نشہ ساری عمر حسین خواب کی مانند یاد آتا رہتا ہے۔
استادوں کی کہی ہوئی بات جنگ کے ایک اداریے سے اس لئے بہت یاد آئی کہ کشمیر کے شورو غوغا میں آٹو اندسٹری کا ذکر ایسی ہی تحریر تھی کیونکہ شاید کم لوگ ہی اخباروں کے اداریوں کو غور سے پڑھتے ہیں۔ اس وقت جب کہتر و مہتر کشمیر پر ہی بیانات داغ رہے ہیں یہ بتانا کہ آٹو انڈسٹری کی پیداوار میں 40سے 60فیصد کمی آئی ہے خبروں کے ہجوم میں اہم ترین حقیقت کی نشاندہی کرنا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کشمیریوں پر ہونے والے ظلم کو دنیا کے سامنے لانا درست نہیں: بات ترجیحات کی ہے۔ میرا دل بھی کشمیریوں پر ہونے والے ظلم پر ویسے ہی خون کے آنسو روتا ہے جیسے فلسطینیوں کے ساتھ حیوانی سلوک کو دیکھتے ہوئے بھی ساری دنیا کی خاموشی پر۔ ٹرمپ انتظامیہ جس طرح جنوبی سرحد پر لاطینیوں کے شیر خوار بچوں کو مائوں سے الگ کر کے کربلا کی داستان ظلم و ستم دہرا رہی ہے وہ بھی انسانیت سوز ہے۔ انسانی تاریخ میں تو پورے پورے براعظموں کی نسل کشی ہوئی ہے۔ کشمیر بھی ان عظیم المیوں میں شامل ہے اور اسے ایسا نہ سمجھنا انسانیت کی نفی ہے۔
ہم اپنی اقلیتوں کا تو تحفظ کر نہیں سکتے لیکن کشمیریوں کے مسئلے کو شہ سرخیوں میں رکھ کر کچھ دوسرے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دنیا بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مکمل طور پر خاموش ہے: امریکہ سمیت سارے مغربی و مشرقی میڈیا میں کشمیر کا ذکر سرے سے ہی غائب ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکمران جس سفارتی فتح کی باتیں کر رہے ہیں وہ صرف پاکستانی عوام کو گمراہ کرنے کے لئے ہیں اور شاید یہ سارا کچھ اتنی شدو مد سے کیا بھی اس لئے جا رہا ہے کہ استعارتاً پاکستان کی آٹو انڈسٹری میں پیداوار نصف ہو گئی ہے جس سے ہزاروں افراد بے روزگار ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں آٹو انڈسٹری کا زوال طویل المیعاد معاشی بحران کا پیش خیمہ ہے۔ پاکستان کی پچھلے چالیس برس کی تیزتر ترقی کا انحصار صارفین کی توسیع سے متصل تھا۔ جاپان، چین، ہندوستان اور جنوبی کوریا کے الٹ پاکستان کی صنعتی پیداوار (مینوفیکچرنگ) پر گہرا جمود طاری رہا۔ تارکین وطن کی کمائی، افغان جنگ کی وجہ سے ملک میں عرب و امریکہ کے ڈالروں کے ٹیکے اور شاید منشیات کی برآمدگی نے صارفین کی قوت خرید میں بنیادی اضافہ کیا۔ اسی بنا پر مقامی کاروبار وسیع تر ہوئے۔ اگر آپ تھوڑا سا بھی غور کریں تو یہ واضح ہو جائے گا کہ پاکستان میں ہر نئے کاروباروں کا تعلق صرف اشیائے صرف کے ساتھ ہے اور پیداواری صلاحیتیں کہیں نظر نہیں آتیں۔ اس پیداوار کے بے آب و گیاہ صحرا میں آٹو انڈسٹری کی موجودگی نخلستان کی مانند تھی۔ اگرچہ اس کے پرزہ جات بھی درآمد کئے جاتے تھے اور ملک کا بیرونی خسارہ بڑھاتے تھے لیکن پھر بھی امید کی جا سکتی تھی کہ کار ساز کبھی نہ کبھی یہ پرزے ملک میں ہی پیدا کرنا شروع کر دیں گے لیکن اب یہ توقع عبث ہے۔
آٹو انڈسٹری کا پھیلاؤ صرف متمول طبقے کا مرہون منت نہیں تھا:اس میں قابل ذکر ترقی درمیانے طبقے کے خریداروں کی وجہ سے ہوئی۔ عمومی طور پر اب کار سامانِ تعیش کے بجائے بنیادی ضرورت بن چکی ہے۔ اس انڈسٹری میں60 فیصد سکڑاؤ کا مطلب ہے کہ درمیانے طبقے کی قوت خرید دم توڑ چکی ہے۔ عوام کی آمدنیوں میں کوئی اضافہ ہوا نہیں اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ امریکہ میں ستر کی دہائی میں یہی کچھ ہوا تھا جس کے نتیجے میں رونلڈ ریگن کا ردِ انقلاب فتحیاب ہوا تھا۔ ریگن نے تو ٹیکسوں کی شرح کم کر کے سامانِ رسد بڑھانے کی پالیسی اختیار کی لیکن پاکستان میں تو یہ ترکیب بھی کارگر نہیں ہو سکتی کیونکہ ٹیکس دینے والے ویسے ہی مٹھی بھر ہیں اور پھر پاکستان میں تو مسئلے کی گہرائی کا ہی اندازہ نہیں ہے، اس کا حل کیا نکالا جائے گا۔ہمارے خیال میں چالیس برس کے بعد پہلی مرتبہ معیشت اتنی تیزی سے سکڑنا شروع ہوئی ہے۔ اس سے پہلے معاشی بہتری کی بنا پر عوام سیاست سے تقریباً لا تعلق رہتے تھے۔ اب وہ زمانہ اختتام پذیر ہو چکا ہے اور اس صورتحال میں کوئی بھی سیاسی انقلاب آ سکتا ہے۔ اس انقلاب کے خدو خال کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اب تبدیلی نا گزیر ہے۔