• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب آبادی کم ہونے کی وجہ سے پاکستانیوں کی اکثریت وسائل کے غلط استعمال کے باوجود آرام دہ اور اچھی زندگی بسر کر رہی تھی، میں اپنے اسکول کے جونیئر سیکشن میں زیر تعلیم تھا۔ معاشرتی علوم کے پیریڈ میں جب بھی ہمارے استاد یہ سوال پوچھتے کہ پاکستان کے کتنے صوبے ہیں تو میں عموماً یہ جواب دیتا کہ پانچ صوبے ہیں۔ بلوچستان، سرحد (خیبر پختونخوا) سندھ، پنجاب اور کشمیر۔میرا جواب سن کر استاد میری تصحیح کرتے کہ پاکستان کے صرف چار صوبے ہیں اور آزاد کشمیر پاکستان کے زیر انتظام ایک علیحدہ علاقہ ہے، مجھے کبھی بھی اس جواب سے اطمینان حاصل نہ ہوا کیونکہ بانیٔ پاکستان کا ایک قول مجھے ہمیشہ بے چین رکھتا تھا کہ ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘۔ میں سوچتا کہ شہ رگ کی عدم موجودگی سے بھلا کیونکر ایک جسم (ملک) زندہ رہ سکتا ہے؟ خیر وقت گزرتا گیا اور کشمیر جسے میں بچپن سے پاکستان کا حصہ سمجھتا رہا، مجھے بتایا جانے لگا کہ کشمیر انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک متنازع علاقہ ہے اور اسی مسئلہ کی وجہ سے دونوں ملکوں میں جنگیں بھی لڑی جا چکی ہیں۔

تقسیم ِ ہند کے وقت ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ وادیٔ جموں و کشمیر کے والی تھے اور برطانوی حکومت کے فارمولے کے مطابق انڈیا اور پاکستان کے علاقوں میں موجود آزاد ریاستیں اپنی مرضی سے دونوں میں سے کسی ایک ملک سے اپنا الحاق کر سکتی تھیں۔ مہاراجہ ہری سنگھ کانگریس اور مسلم لیگ کی سیاست سے عملاً دور رہتے تھے۔ جبکہ مذہباً ہندو ہونے کی وجہ سے اور سردار پٹیل اور پنڈت نہرو سے اپنے تعلقات کی بنیاد پر ریاست جموں و کشمیر کی مسلم اکثریت کی خواہش کے باوجود اپنی ریاست کا الحاق بھارت کے ساتھ کر دیا جبکہ راجہ کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے پاکستان کے قبائلی علاقوں کے بہادر عوام نے کشمیر کے ایک بڑے حصے کو ڈوگرہ راج سے آزاد کرا لیا جو آزاد کشمیر کہلاتا ہے۔ تقسیمِ ہند کے وقت سے کشمیر کا یہ حصہ حکومت پاکستان کے زیر انتظام ہے، اس لئے اپنے کشمیری بھائیوں سے جڑا جذباتی رشتہ ہمیں بچپن سے بھی ورثہ ملا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آزادیٔ کشمیر کی ہر تحریک میں پاکستانی عوام نے مقبوضہ کشمیر کےعوام کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا اور ہمیشہ کشمیریوں کی سماجی، اخلاقی، مذہبی، سفارتی اور سیاسی مدد جاری رکھی۔ جبکہ دوسری طرف بھارت مقبوضہ وادی کو کشمیریوں کی خواہشات کے برعکس اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے میں لگا رہا اور کشمیر میں ہری سنگھ کی جگہ اس کے بیٹے یوراج سنگھ کو ریاست کا صدر اور شیخ عبدااللہ کو وزیراعظم مقرر کر دیا۔ بانیٔ پاکستان محمد علی جناح ایک عظیم لیڈر تھے، کشمیر کے محل وقوع اور آبادی کے تناسب کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیشہ اس مسئلے کے حل کو پاکستان کی بقا کے لئے انتہائی اہم سمجھتے تھے کیونکہ پاکستان میں بہنے والے زیادہ تر دریائوں کا منبع کشمیر ہی ہے اور پنجاب کے بیشتر بڑے شہروں سے سرینگر کی مسافت ایک سو میل سے کہیں کم ہے بلکہ ظفروال سیالکوٹ شکرگڑھ سے وادی کشمیر صرف 25سے 30میل کی دوری پر ہے اور دونوں طرف رہنے والے کشمیری ہمیشہ اپنوں سے دوری کو نہ صرف محسوس کرتے ہیں بلکہ بھارت کی ہٹ دھرمی اور ظالمانہ پالیسیوں کی وجہ سے کشمیریوں کی نسلیں اپنے عزیز و اقارب سے جدائی کا دکھ بھی سہہ رہی ہیں۔

حالیہ دنوں میں کشمیر کے مسئلہ میں ڈرامائی تبدیلی اُس وقت آئی جب طاقت کے نشہ میں چُور مودی سرکار امسال دوبارہ اقتدار میں آئی اور ہندوتوا اور آر ایس ایس کے انتہا پسندانہ نظریات کی حامل بھارتیہ جنتا پارٹی نے کشمیر کے علاقہ جس پر بھارتی حکومت غیر قانونی طور پر قابض ہے، کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا۔ 5اگست کو بھارتی آئین کی شق 35Aاور 370کا خاتمہ وادیٔ کشمیر میں نہ صرف بھونچال لے کر آیا بلکہ پاکستان کے طول و عرض میں غم و غصہ کی لہر دور گئی، گائوں گائوں، شہر شہر مودی سرکار کے اس بہیمانہ اور ظالمانہ اقدام کے خلاف زبردست مظاہرے اور احتجاج تاحال جاری ہے۔ 5اگست سے اب تک کشمیریوں کو کرفیو کا سامنا ہے اور عملی طور پر وادی کے لوگ تمام دنیا سے کٹ چکے ہیں۔ غذائی قلت، اسپتالوں کی بندش، تعلیمی اداروں کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے ایک بھیانک صورتحال کشمیریوں کو درپیش سہے۔ اس مرتبہ حکومت پاکستان نے دفاعی حکمت عملی کے بجائے جارحانہ پالیسی اپنائی۔ پاکستان اندرونی اور بیرونی محاذ پر کشمیر کے بقا کی جنگ بھرپور طریقہ سے لڑنے کے لئے نہ صرف پُرعزم بلکہ او آئی سی اور اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کے موقف کی نہ صرف تائید کی گئی بلکہ مودی سرکار سے فی الفور کرفیو اٹھانے کا مطالبہ بھی کیا گیا اور بھارتی اور غیر ملکی میڈیا کو مقبوضہ وادی کا دورہ کروانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ امسال پوری دنیا میں پاکستانی اور کشمیریوں نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی اپیل پر 14اگست کو یوم یکجہتیٔ کشمیر جبکہ 15اگست بھارت کے یوم آزادی کو ’’بلیک ڈے‘‘ کے طور پر منایا۔ اس مرتبہ کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی مذمت کے لئے لندن، پیرس، نیویارک اور واشنگٹن میں پاکستانیوں اور کشمیریوں نے زبردست مظاہرے کئے، اس میں شرکاء کی تعداد اس قدر متاثر کن تھی کہ غیر ملکی میڈیا بھی اس مسئلہ پر بات کئے بغیر نہ رہ سکا۔حالیہ اقدامات سے پوری دنیا میں مسئلہ کشمیر اُجاگر کرنے میں مدد ملی ہے لیکن اس کیساتھ ہمیں مغربی ممالک کے رویے اور اپنے کئی مسلم ممالک کے جانبدارانہ موقف سے پیدا ہونیوالی صورتحال کے نتیجہ میں اپنی سوچ کے انداز کو بدلنے کی بھی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اپنی قوم کو بدلتے زمانوں کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کیا تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے اور پیچھے رہنے والی قوموں کو تاریخ کبھی اپنے اوراق میں جگہ نہیں دیتی۔

(صاحب مضمون نائب صدر مرکز ِشکایات وزیراعلیٰ پنجاب ہیں)

تازہ ترین