• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میزبان:محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

رپورٹ:طلعت عمران

عکّاسی: اسرائیل انصاری

کشمیر.... ایک المیہ
سردار محمّد اشرف خان
ماہر امور کشمیر

 امریکا 1948ء سے کشمیر میں دلچسپی لے رہا ہے، پاکستان نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے امریکا سے اتحاد کیا، امریکا نے پاکستان کو ہمیشہ دھوکا دیا، ثالثی کی پیشکش سے ٹرمپ نے پاکستان کو گمراہ کرنے کی کوشش کی، عمران خان نے کشمیر کے حوالے سے دو ٹوک موقف نہیں اپنایا، پاکستان کو روس اور چین کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا، کیوں کہ وہ بھارت پر دبائو ڈال سکتے تھے، کوئی بھی کشمیری بھارت کا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں، مسئلہ کشمیر کے عالمی مسئلہ بننے پر بھارت فکر مند ہے، مشرف فارمولا قابلِ عمل ہے، کشمیر آزاد کروانے کا موزوں وقت ہے، جب تک امریکا کو ہماری ضرورت رہے گی، تعلقات قائم نہیں رہیں گے، بھارت نے کسی معاہدے کا پاس نہیں رکھا

سردار اشرف خان

کشمیر.... ایک المیہ
ڈاکٹر نعیم احمد
چیئرمین، شعبہ بین الاقوامی تعلقات،
کراچی یونی ورسٹی

ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کی وجہ سے مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر ہوا، عالمی طاقت ہونے کے ناتے امریکا پر ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکے، مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتا رہا، بھارت نے امریکا اور روس دونوں سے فواید حاصل کیے، دنیا میں پاکستان کا تاثر تبدیل ہو رہا ہے


ڈاکٹر نعیم احمد

کشمیر.... ایک المیہ
ڈاکٹر ہما بقائی
ماہرِ امورِ خارجہ/ آئی بی اے کراچی

ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو زیادہ سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں،خارجہ پالیسی سے متعلق فیصلےامریکی کانگریس کرتی ہے،امریکا میں بھارتی لابی کا کافی اثرورسوخ ہے،بھارت ثالثی پرآمادہ نہیں، مستقبل میں تنائو مزید بڑھے گا، امریکا پس پردہ رہ کر بھارت کو ثالثی قبول کرنے پر مجبور کرسکتا ہے،بھارتی سپریم کورٹ میں زیرِالتوادرجن سے زاید درخواستوں کو جواز بنا کربھارتی حکومت فیصلہ واپس لے سکتی ہے،امریکا کے ذہن میں’’مشرف ماڈل‘‘ ہے، اس وقت کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دینے کا مطالبہ پاکستان کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، ہم جنگ میں نہیں الجھنا چاہتے، ایٹمی جنگ کی دھمکی دینا دانش مندی نہیں، عمران خان کی تقریر کا مقصد بھارتی مظالم کا پردہ چاک کرنا تھا

ڈاکٹر ہما بقائی

کشمیر.... ایک المیہ
نوشین وصی
شعبہ بین الاقوامی تعلقات ، کراچی یونی ورسٹی

 عمران خان نے اپنی تقریر میں پاکستان کا قومی بیانیہ پیش کیا، ہم کشمیر سے متعلق اسٹیٹس کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، بھٹو نے شملہ معاہدے میں یہ شق شامل کروائی کہ دو طرفہ مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں، تو پاکستان اور بھارت کوئی تیسرا ذریعہ استعمال کر سکتے ہیں

نوشین وصی

بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر ’’ہاٹ ایشو‘‘ بن چکا ہے۔ اس مسئلے کی اہمیت کے پیشِ نظر امریکی صدر ،ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی مرتبہ وائٹ ہائوس میں وزیرِ اعظم پاکستان، عمران خان سے ملاقات کے دوران مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی، جب کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر بھی انہوں نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا اس دیرینہ تنازعے کے حل میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔ نیز، پاکستان اور بھارت کے لیے کس قسم کا کردار قابل قبول ہو گا اور دونوں ممالک اپنی جانب سے کون کون سی شرائط پیش کریں گے۔ علاوہ ازیں، وہ کون سے نکات ہوں گے کہ جن پر فریقین کا اتفاق ہو سکتا ہے۔ یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ امریکا کے علاوہ دیگر عالمی طاقتیں، جن میں برطانیہ، چین اور روس وغیرہ شامل ہیں، مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کردار کیوں نہیں ادا کر سکتیں اور اس ثالثی کی پیشکش کے پیچھے کون سے امریکی مفادات کار فرما ہیں۔ ان سمیت دیگر سوالات کے جواب جاننے کے لیے گزشتہ دنوں جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں ’’مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں ماہر بین الاقوامی اموراور کمیٹی برائے فارن ریلیشنزکی رکن، ڈاکٹر ہما بقائی، ماہر امور کشمیر، سردار اشرف خان، شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے چیئرمین، ڈاکٹر نعیم احمد اور بین الاقوامی تعلقات کی ماہر، نوشین وصی نے اظہارِ خیال کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔

کشمیر.... ایک المیہ
جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں ’’مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی؟‘‘ کے موضوع پر منعقدہ جنگ فورم کا منظر اور شرکا کا گروپ فوٹو، ایڈیٹر جنگ فورم ، کراچی محمد اکرم خان میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں

جنگ :امریکی صدر کی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کی پیشکش کس قدر اہمیت کی حامل ہے؟

ڈاکٹر ہما بقائی :ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو صرف ایک پیشکش ہی سمجھنا چاہیے۔ یاد رہے کہ جب 1971ء میں سقوطِ ڈھاکا ہوا تھا، تو اس وقت بھی وائٹ ہائوس میں موجود صدر نکسن نے خود کو پاکستان کا سب سے قریبی دوست قرار دیتے ہوئے بہت سی یقین دہانیاں کروائی تھیں۔ تاہم، اس دوران امریکی کانگریس نے پاکستان کی دفاعی امداد پر پابندی عاید کر دی۔ بلاشبہ امریکی صدر دنیا کا طاقت ور ترین فرد ہوتا ہے، لیکن خارجہ پالیسی سے متعلق فیصلے کانگریس ہی کرتی ہے۔ اس وقت امریکا میں بھارتی لابی کا کافی اثر و رسوخ ہے۔ لہٰذا، ہمیں اس پیشکش کو جذبہ خیر سگالی کے ایک بیان کے طور پر ہی دیکھنا چاہیے۔ تاہم، اس کی وجہ سے پورے پاکستان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور بھارت میں صف ماتم بچھ گئی، کیوں کہ اسے اس بات کی توقع ہی نہیں تھی۔ البتہ یہ بات پیشکش سے آگے نہیں بڑھے گی، کیوں کہ بھارت ثالثی پر آمادہ ہی نہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا، پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتے تنائو کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ اس سوال کا جواب ہاں میں دیا جا سکتا ہے۔ یو این جی اے سیشن کے اختتام پر پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری جنگ کے خدشے پر سب سے زیادہ تشویش کا اظہار کیا گیا۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں اسی لیے جوہری جنگ کے خدشے کا اظہار کیا کہ دنیا کو صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ ہو۔ وزیر اعظم نے نیو یارک جانے سے قبل یہ بیان بھی دیا تھا کہ لائن آف کنٹرول کی جانب جانے سے پہلے جنرل اسمبلی سے میرے خطاب کا انتظار کر لیں۔ موجودہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں تنائو میں مزید اضافہ ہو گا، لیکن امریکا ایسا نہیں چاہتا۔ حال ہی میں افغانستان میں ہونے والی صدارتی انتخابات میں ٹرن آئوٹ کم و بیش 20فی صد رہا ، جو ماضی کے مقابلے میں بھی کم ہے۔ پھر وہاں پر تشدد واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ افغانستان میں کم ٹرن آئوٹ پر سوالات اٹھائے جائیں، جس کے نتیجے میں وہاں افراتفری مزید بڑھ جائے، جب کہ امریکی صدر کے لیے افغانستان میں قیامِ امن نہایت ضروری ہے اور اس مقصد کے لیے وہ پس پردہ رہ کر بھارت کو مجبور کر سکتے ہیں۔ نتیجتاً، بھارت اپنے دیرینہ مؤقف سے پیچھے ہٹ سکتا ہے۔ یو این جی اے سیشن کے موقع پر عمران خان اور پاکستانی مؤقف کی جس قدر پزیرائی ہوئی، اس سے بھارت میں بھی کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ بھارت کو مجبوراً یہ فیصلہ واپس لینا پڑے گا۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد بھارتی سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف ایک درجن سے زاید درخواستیں زیرِ التوا ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بھارتی حکومت راہِ فرار اختیار کرنے کے لیے اس دبائو کو جواز بنا کر فیصلے کو کالعدم قرار دے دے۔ آر ایس ایس ایک انتہائی خطرناک جماعت ہے اور اسے نازیوں سے جوڑنے کی وجہ سے اس پر بھارت میں بھی بہت زیادہ تنقید کی جا رہی ہے۔ اس وقت بھارتی حکومت کو فیس سیونگ چاہیے۔ اس معاملے پر ثالثی تو نہیں ہو گی، لیکن ہو سکتا ہے کہ بھارت ہی اس مسئلے کا کوئی حل پیش کر دے۔

جنگ :ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کے پیچھے کیا عوامل کار فرما ہیں؟

ڈاکٹر ہما بقائی :میرے خیال میں اس وقت امریکا کے ذہن میں مشرف ماڈل ہے، کیوں کہ وہی قابلِ عمل ہے۔ ہمیں کشمیریوں کی حالت زار میں بہتری سے غرض ہے۔ اس لیے پاکستان نے یہ نکتہ اٹھایا کہ مقبوضہ کشمیر میں نافذ کرفیو اٹھایا جائے اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکی جائیں۔ اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دیا جائے، تو یہ مطالبہ پاکستان کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، کیوں کہ حال ہی میں وہاں کوئی سروے نہیں کروایا گیا اور یہ مطالبہ زمینی حقائق کے بر خلاف ہو سکتا ہے۔

جنگ :صرف امریکا ہی سے بھارت پر دبائو ڈالنے کے لیے کیوں کہا جا رہا ہے۔ کیا دوسری عالمی طاقتیں اور خود اقوامِ متحدہ اس سلسلے میں کردار ادا نہیں کر سکتی؟

سردار اشرف خان: 1948ء میں برطانیہ نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کائونسل میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ یو این او مقبوضہ کشمیر میں فوج تعینات کرے، جو 6مہینے یا ایک سال میں رائے شماری کے ذریعے اس بات کا فیصلہ کرے کہ کشمیری بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ یا کشمیریوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ ہے۔ خود امریکی مصنفین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ جب برطانیہ نے امریکا کے سامنے یہ تجویز پیش کی، تو امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم بھارت سے پوچھ کر بتائیں گے۔ جب بھارت سے پوچھا گیا، تو اس نے یہ تجویز ماننے انکار کر دیا اور پھر امریکا بھی مذکورہ برطانوی تجویز کا ضامن نہیں بنا۔ امریکا 1948ء ہی سے کشمیر میں دلچسپی لے رہا ہے۔ میں یہاں ایک اور واقعے کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ شیخ عبداللہ نے امریکا سے کہا کہ ہم کشمیر کی خود مختار حیثیت چاہتے ہیں۔ تاہم، اس کے بعد بھارت نے شیخ عبداللہ کو مقبوضہ کشمیر کا وزیر اعظم بنا دیا اور پھر ان کی گرم جوشی دم توڑ گئی۔ پاکستان نے ہمیشہ کشمیر کی وجہ ہی سے امریکا سے اتحاد کیا۔ چاہے وہ سیٹو، سینٹو ہو یا افغانستان کی جنگ۔ 1962ء میں جب چین، بھارت جنگ ہوئی، تو امریکا نے پاکستان سے کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کر دے گا، لیکن پاکستان ابھی کچھ نہ کرے۔ یعنی بھارت کے سوویت یونین اتحادی ہونے کے باوجود امریکا نے اپنے اتحادی پاکستان کو فائدہ نہ اٹھانے دیا۔ اگرچہ اس موقعے پر پاکستان کو امریکا نے دھوکا دیا، لیکن پاکستان نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اسی طرح افغان جنگ میں بھی پاکستان، امریکا کے جال میں پھنس گیا ۔ اس مرتبہ بھی امریکا نے پاکستان کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ وزیر اعظم نے نیو یارک میں بہت شاندار تقریر کی، لیکن میں دو باتوں کی جانب توجہ دلانا چاہوں گا۔ اپنی تقریر میں عمران خان کی جانب سے ایٹمی جنگ سے ڈرانا کوئی دانش مندانہ بات نہیں۔ اسی طرح پاکستان نے کشمیر کے حوالے سے کوئی دو ٹوک مؤقف نہیں اپنایا۔ میرا ماننا ہے کہ وائٹ ہائوس میں ٹرمپ نے عمران خان سے غلط بیانی کی اور بعد میں بھارتی میڈیا کا بھی یہی کہنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے عمران خان اور مودی کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ دونوں مل کر اس مسئلے کا حل نکالیں۔ بعد ازاں، نائب امریکی وزیر خارجہ نے بھارت سے اقدامات کے لیے کہا۔ اگرچہ عمران خان نے اپنی تقریر میں 190ممالک کے رہنمائوں کے سامنے مودی کو بے نقاب کیا، لیکن چین، ترکی اور ملائیشیا کے علاوہ کسی بھی ملک نے کشمیر پر پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔ اس پلیٹ فارم پر پاکستان کو مسئلہ کشمیر کا کوئی حل پیش کرنا چاہیے تھا، لیکن پاکستانی حکام نے شاید اس لیے یہ معاملہ نہیں اٹھایا کہ کہیں بھارت آزاد کشمیر پر حملہ نہ کر دے۔ اسی طرح پاکستان کو روس اور چین کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے تھا اور وہ کشمیر کے معاملے پر بھارت کو دبائو میں لے سکتے تھے۔ اس وقت کوئی بھی کشمیری بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا، چاہے وہ بھارت نواز رہنما ہی کیوں نہ ہوں۔ میں ہما بقائی کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش صرف زبانی جمع خرچ ہے اور ہمیں امریکا پر آنکھیں بند کر کے یقین نہیں کرنا چاہیے۔

جنگ :اس صورتِ حال میں کیا کرنا چاہیے؟

سردار اشرف خان :مسئلہ کشمیر کے بنیادی فریق کشمیری ہیں۔ اس وقت بھارت کے لیے سب سے زیادہ فکر مندی کی بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی توجہ حاصل ہو چکی ہے۔ اس ضمن میں تارکینِ وطن پاکستانیوں نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے زبان، نسل اور مذہب کی تفریق سے بالاتر ہو کر ’’وی وانٹ فریڈم‘‘ کا نعرہ لگایا۔ میرا تعلق آزاد کشمیر سے ہے اور میں جانتا ہوں کہ کوئی بھی کشمیری کشمیر کی تقسیم نہیں چاہتا۔ مشرف فارمولا اچھا ہےاور نہرو نے شیخ عبداللہ کو یہی فارمولا دے کر امریکا بھیجا تھا۔ اس وقت 9لاکھ بھارتی فوجی کشمیر میں مصروف ہیں اور بھارت کی معیشت بھی مستحکم نہیں۔ نیز، بھارت دفاعی طور پر اتنا مضبوط نہیں، جتنا ہم سمجھ رہے ہیں اور نہ ہی ہم اتنے کمزور ہیں، جتنا ہم خود کو سمجھتے ہیں۔ کشمیر کو آزاد کروانے کا یہی موزوں وقت ہے۔ تاہم، عسکریت پسندی سے گریز کیا جائے۔ ہمیں صرف کشمیریوں کے ساتھ کھڑا نہیں رہنا چاہیے۔ پاکستان افغان عمل کو بھی استعمال کر سکتا ہے اور اب دوبارہ مذاکرات شروع ہونے والے ہیں۔ پھر اس وقت خود ٹرمپ کو مواخذے کا سامنا ہے۔ پاکستان کے پاس اس وقت موقع ہے اور اسے فوراً اسٹینڈ لینا چاہیے۔ اس موقع پر دوسرے ممالک بھی پاکستان کا ساتھ دیں گے۔

جنگ :کیا امریکا مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کروانے میں سنجیدہ ہے؟

ڈاکٹر نعیم احمد :ثالثی کے لیے لازمی شرط یہ ہوتی ہے کہ دونوں فریقین اس پر آمادہ ہوں۔ اس وقت پاکستان تو امریکا کو بہ طور ثالث قبول کرنے پر آمادہ ہے، لیکن بھارت تیار نہیں۔ بھارت کا دیرینہ مؤقف یہ ہے کہ وہ اس خطے میں کسی بیرونی طاقت کی مداخلت برداشت نہیں کرے گا۔ جہاں تک ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کی بات ہے، تو ہمیں اسے اہمیت دینی چاہیے، کیوں کہ اس کی وجہ سے مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر ہوا۔ تاہم، یہ مسئلہ اس سے قبل ہی نیوکلیئر فلیش پوائنٹ بن چکا تھا، کیوں کہ پلوامہ واقعے کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی انتہا پر پہنچ گئی تھی۔ پھر امریکا یہ بھی جانتا ہے کہ اس مسئلے کی وجہ سے خطے میں انتہا پسندی پھیل رہی ہے۔ نیز، ایک عالمی طاقت ہونے کے ناتے امریکا پر یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکے۔ اسی لیے امریکا نے بھارت سے مقبوضہ کشمیر سے کرفیو ہٹانے کا مطالبہ کیا، کیوں کہ اس کی وجہ سے ایک انسانی بحران جنم لے رہا ہے۔ علاوہ ازیں، افغانستان میں قیامِ امن اور سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کے حوالے سے بھی پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ لہٰذا، ہمیں ٹرمپ کی پیشکش کو اس تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے۔

ڈاکٹر ہما بقائی :میرا ماننا یہ ہے کہ امریکا ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گا کہ جس سے اس خطے میں اس کے وسیع تر مفادات کو نقصان پہنچے۔ امریکا نے اس خطے میں بھارت کو چین کے مقابل کھڑا کیا ہے اور وہ کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھائے گا کہ جس سے پاکستان کے مؤقف کو تقویت ملے۔ یورپ اس وقت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر میں کوئی کردار ادا کرے۔ ہم چین سے اس لیے توقع نہیں رکھ سکتے کہ امریکا، چین کے بعد سب سے بڑا تجارتی حجم چین، بھارت کا ہے۔ نیز، چین برملا یہ کہتا ہے کہ بھارت کو ون بیلٹ، ون روڈ میں شامل ہونا چاہیے اور چین اس کا فطری اتحادی ہے۔ یاد رہے کہ ون بیلٹ، ون روڈ کے مقابلے میں سی پیک کی حیثیت مونگ پھلی کے دانے کے برابر ہے۔ لہٰذا، ایسا ممکن نہیں کہ چین کشمیر کی خاطر ایک تاریخ ساز منصوبے کو خطرے میں ڈال دے۔ مودی نے ذہانت سے کام لیتے ہوئے یہ غیر معمولی قدم اٹھایا۔ انہیں معلوم تھا کہ امریکا اس اقدام کی مخالفت نہیں کرے گا اور چین بھی ایک حد سے آگے نہیں جائے گا۔ اس وقت پاکستان کی مغربی و مشرقی دونوں سرحدیں گرم ہیں اور پاکستان کسی صورت سی پیک کو سبوتاژ ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان جنگ میں نہیں الجھنا چاہتا۔ البتہ جوہری جنگ کو دھمکی کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ ہمارا دل کشمیر کے ساتھ ہے۔ بھارت کو کشمیر کے اندر سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ البتہ پاکستان نے بھارت کو دنیا بھر میں شرمندہ کیا۔

جنگ :پاکستان نے متاثرہ فریق ہونے کے باوجود جنگ کی دھمکی دی، جب کہ جارح مزاج مودی نے امن کا پیغا م دیا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

ڈاکٹر ہما بقائی :میں اس بات سے اتفاق کرتی ہوں کہ دنیا کو ایٹمی جنگ سے دھمکانا دانش مندی نہیں۔ پھر پاکستان اور بھارت دونوں ہی ایٹمی طاقت ہیں اور ہم ایک دوسرے کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال نہیں کر سکتے۔ ہم شارٹ رینج ٹیکٹیکل ویپنز بھی استعمال نہیں کر سکتے، البتہ یہ مزاحمت کا ایک بڑا ذریعہ ہیں اور اس کی وجہ سے بھارت آزاد کشمیر میں حد سے زیادہ مہم جوئی نہیں کرے گا۔

جنگ :عمران خان نے اپنی تقریر میں اس بات پر زور کیوں نہیں دیا کہ اقوامِ متحدہ اپنی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کروائے؟

ڈاکٹر ہما بقائی :بھارت اس پر آمادہ نہیں۔ ان قراردادوں پر عمل درآمد لازمی ہے، مگر گزشتہ 70برس سے نہیں ہوا۔ اس وقت اقوامِ عالم کے مفادات بھارت سے وابستہ ہیں اور عمران خان نے بھی اپنی تقریر میں اسی بات کی جانب توجہ دلائی۔ وزیر اعظم کی تقریر کا مقصد بھارتی مظالم کا پردہ چاک کرنا تھا۔

نوشین وصی :عمران خان نے اپنی تقریر میں پاکستان کا قومی بیانیہ پیش کیا۔ اپنی تقریر میں انہوں نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ اگر دنیا اور اقوامِ متحدہ اس جانب توجہ نہیں دیتی، تو پھر جنگ کا خدشہ ہے۔ مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کی ضرورت تھی اور عمران خان نے یہ کام کیا۔ ہماری کشمیر سے متعلق کوئی پالیسی نہیں ہے۔ ہم اسٹیٹس کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور عالمی برادری بھی یہی چاہتی ہے۔ عمران خان کی تقریر کے نتیجے ہی میں مقبوضہ کشمیر کے 44اضلاع میں کرفیو نرم کیا گیا۔ اس وقت بھارت میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ عمران خان کی تقریر کا مؤثر جواب نہیں دیا گیا۔ اس تقریر سے جذبات میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ ہم اسٹیٹس کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور پھر ویسے بھی کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے کشمیر کی صورتِ حال پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔

آمنہ :ٹرمپ نے ’’انتہا پسند اسلام‘‘ کی اصطلاح استعمال کی، جب کہ عمران خان نے اسے رد کیا۔ اس کے نتیجے میں مستقبل میں پاک، امریکا تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اگر پاکستان ٹیکٹیکل ویپنز استعال کرنے پر مجبور ہوتا ہے، تو کیا اس کے رد عمل میں بھارت جوہری ہتھیار استعمال نہیں کرے گا؟

ڈاکٹر ہما بقائی :عمران خان نے اپنے خطاب میں ’’اسلامو فوبیا‘‘ سے متعلق وہ باتیں کہیں کہ جو شاید پوری امتِ مسلمہ کے رہنمائوں کو کرنی چاہیے تھیں اور یہ شاید ہم سب کے دل کی آواز تھی۔ یاد رہے کہ جب رائے عامہ تبدیل ہوتی ہے، تو پھر حالات بھی تبدیل ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ہم ماضی میں کئی مثالیں دیکھ چکے ہیں۔ البتہ پاک، امریکا تعلقات میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو گی۔ اب جہاں تک ٹیکٹیکل ویپنز کی بات ہے، تو یہ ہم نے تب تیار کیے تھے کہ جب بھارت نے کولڈ اسٹارٹ اسٹریٹجی کی بنیاد رکھی تھی۔ کولڈ اسٹارٹ کا مطلب یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کے متحرک ہونے سے پہلے ہی کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا۔ تاہم، جب ہم نے ٹیکٹیکل ویپنز تیار کر لیے، تو پھر بھارت خاموش ہو گیا۔

سردار اشرف خان :مغرب نے پہلے مسلمانوں کو مجاہد بنا کر سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا اور اب انہیں دہشت گرد قرار دے رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دنیا کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ تاہم، مسلمانوں کو خود بھی اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ آیا ان کی اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے تو یہ صورتِ حال پیدا نہیں ہوئی۔ جب تک امریکا کو ہماری ضرورت رہے گی، تب تک تعلقات قائم رہیں گے۔ البتہ ان میں اونچ نیچ آتی رہے گی۔ تاہم، جب امریکا کو ہماری ضرورت نہیں رہے گی، تو وہ ہمیں سمندر میں غرق کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر بھی نہیں کرے گا۔

ادراک حسین :شملہ معاہدے کی رو سے مسئلہ کشمیر میں کوئی تیسرا فریق ثالثی نہیں کر سکتا۔ اگر ہم اس معاملے میں عالمی برادری کو شامل کرتے ہیں، تو کیا یہ شملہ معاہدے سے انحراف نہیں ہو گا؟

سردار اشرف خان :شملہ معاہدے کی رو سے پاکستان اور بھارت دو طرفہ بنیادوں پر بہ تدریج اعتماد بحال کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کا حل نکالیں گے، لیکن معاہدے میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ اس جانب عالمی برادری کی توجہ مبذول نہیں کروائی جائے گی۔ اس مرتبہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں، کشمیریوں اور سکھوں نے بھی بڑے پیمانے پر احتجاج کیا، جس کے نہایت مثبت اثرات سامنے آ رہے ہیں۔ آپ صرف شملہ معاہدے کی بات کرتے ہیں، جب کہ بھارت نے تو مسئلہ کشمیر سے متعلق کسی بھی معاہدے کا پاس نہیں رکھا۔

نوشین وصی :بھٹو صاحب نے شملہ معاہدے میں یہ شق بھی شامل کروائی کہ اگر دو طرفہ مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں، تو پاکستان اور بھارت کوئی دوسرا ذریعہ بھی استعمال کر سکتے ہیں، اگر وہ ضروری سمجھا جائے۔

ڈاکٹر ہما بقائی :یہ بھٹو صاحب کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے ایک انتہائی مشکل وقت میں اتنا اچھا معاہدہ کیا۔ مسئلہ کشمیر کو کافی پہلے بھی عالمی مسئلہ بنایا جا سکتا تھا۔ اگرچہ پاکستان نے اپنا مقدمہ اچھے انداز سے لڑا، لیکن مسئلہ کشمیر نے بھارت کی وجہ سے اقوامِ عالم کی توجہ حاصل کی۔

سردار اشرف خان :شملہ معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان وہ واحد معاہدہ ہے کہ جو دونوں ممالک کو مسئلہ کشمیر پر اکھٹا کرتا ہے۔

ڈاکٹر نعیم احمد: 1949ء سے 1972ء تک کشمیر پر پاکستان اور بھارت کا مؤقف وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتا رہا۔ کبھی مسئلہ کشمیر دو طرفہ مسئلہ بن جاتا ہے، تو کبھی عالمی مسئلہ اور کبھی اندرونی مسئلہ بن جاتا ہے۔ اعلانِ لاہور میں دونوں ممالک اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر پر دو طرفہ مذاکرات ہونے چاہئیں۔ پھر 2004ء میں کمپوزٹ ڈائیلاگ کا مرحلہ آتا ہے، جس میں کشمیر ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے۔ یعنی ماضی میں دونوں ممالک کے مؤقف ہی تبدیل ہوتے رہے ہیں۔

ظفر اللہ: آپ نے کہا کہ امریکا، بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے، لہٰذا وہ اس کی ناراضی مول نہیں لے سکتا، لیکن کیا امریکا کے لیے یہ زیادہ بہتر نہیں ہو گا کہ وہ پاکستان اور بھارت دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لا کر چین کے خلاف استعمال کرے؟

ڈاکٹر ہما بقائی :ایسا ممکن نہیں، کیوں کہ اس وقت خطے میں ایک نئی سرد جنگ جنم لے رہی ہے۔ تاہم، یہ نظریاتی جنگ نہیں ہے، بلکہ جغرافیائی و اقتصادی مفادات کی جنگ ہے۔ جنگ میں فریقین ہوتے ہیں۔ پہلی سرد جنگ میں ہم مغربی کیمپ میں تھے اور بھارت مشرقی کیمپ میں، جب کہ اس وقت ہم مشرقی کیمپ میں ہیں اور بھارت مغربی کیمپ میں۔

سردار اشرف خان :امریکا کی خواہش یہی ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں ہی اس کی جیب میں ہوں۔ تاہم، امریکا کو بھارت سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا، بلکہ بھارت اس سے اپنے مفادات حاصل کرے گا۔ اس نے روس کے ساتھ بھی یہی کیا۔

ڈاکٹر ہما بقائی :ہم نے بھی امریکا کو ایک ٹکے کا فائدہ نہیں پہنچایا اور ہمیشہ اپنے مفادات کو ملحوظِ خاطر رکھا۔ ہم جوہری طاقت بن گئے، لیکن امریکا ہمیں روک نہیں پایا۔

ڈاکٹر نعیم احمد :میں سردار صاحب کی اس بات سے اختلاف کرتا ہوں۔ سرد جنگ کے دوران امریکا کی یہ خواہش تھی کہ بھارت نیوٹرل رہے اور مشرق و مغرب کے درمیان جاری محاذ آرائی کا حصہ نہ بنے، کیوں کہ اگر سب سے بڑے جمہوری ملک کا جھکائو سوویت یونین کی طرف ہوتا، تو امریکا کے لیے مشکل پیدا ہو جاتی۔ لہٰذا، یہ امریکا کی ایک بڑی کامیابی ہے کہ اس نے بھارت کو غیر جانب دار رکھا۔ اگرچہ اس وقت بھارت کا جھکائو امریکا کی طرف ہے، لیکن اس نے روس کے ساتھ بھی اپنے تعلقات قائم رکھے ہیں اور اس سے بھی مفادات حاصل کر رہا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس خطے میں سب سے زیادہ بھارت ہی فائدے میں رہا ۔

توقیر حسین :پاکستان، بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت پر شدید رد عمل ظاہر کر رہا ہے، جب کہ 1974ء میں خود پاکستان نے گلگت بلتستان کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا؟

سردار اشرف خان :اقوامِ متحدہ کی ٹرسٹی شپ کائونسل کی جانب سے دیے گئے اختیارات کی روشنی ہی میں پاکستان نے فیصلہ کیا اور کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔ یہ بھارت کا جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔ منصوبوں کے لیے بھارت کے پاس پہلے بھی مقبوضہ کشمیر کی زمین موجود تھی۔ پاکستان نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی کبھی خلاف ورزی نہیں کی۔ پاکستان نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو خود مختاری دے رکھی ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ پاکستان معذرت خواہانہ رویہ اپناتا ہے۔ پاکستان نے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر فوج کے ذریعے قبضہ نہیں کیا، جب کہ بھارت نے فوج کے ذریعے کشمیر پر قبضہ کیا۔ لہٰذا، دونوں میں کوئی مماثلت نہیں۔

علی رضا :حال ہی میں روسی صدر، پیوٹن نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی مخالفت کرتے ہوئے اسے دو طرفہ معاملہ قرار دیا ہے۔ آپ اس بیان کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ڈاکٹر ہما بقائی :جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ خطے میں ایک نئی سرد جنگ شروع ہونے والی ہے، تو روس کیوں چاہے گا کہ ثالثی کی صورت میں امریکا کو یہاں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع مل جائے۔ چین اور روس دونوں ہی امریکا کو اس خطے سے باہر رکھنا چاہتے ہیں۔

سردار اشرف خان :اس سلسلے میں روس اور چین کا مؤقف ایک ہے۔ 1948ء میں روس نے بھارت کے حق میں ویٹو کیا اور اسی نے مسئلہ کشمیر کو بگاڑا۔ اب چین، روس اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں اور مستقبل میں خطے میں ان طاقتوں کا کردار بڑھے گا۔

ڈاکٹر ہما بقائی :حال ہی میں روس نے میزائل ڈیفنس سسٹم بھارت کو فروخت کیا ہے اور اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی ہو گئی، تو ہتھیاروں کی صنعت کا کیا بنے گا۔

خلیل الرحمٰن :حالیہ دنوں امریکی صدر، حکام اور سینیٹرز کی جانب سے پاکستان کے حق میں جو بیانات آئے ہیں، انہیں ہم نے غیر مفید قرار دیا، حالاں کہ آج سے صرف ایک برس قبل یہی امریکی صدر پاکستان کو دہشت گردوں کی معاونت کرنے والا ملک قرار دے رہے تھے۔ کیا یہ پاکستان کی کامیابی نہیں کہ ایک سپر پاور کا صدر اسے اپنا دوست قرار دے رہا ہے اور اس کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کی ساکھ بہتر ہو گی؟

ڈاکٹر نعیم احمد :بین الاقوامی تعلقات میں تاثر کی اہمیت ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک دنیا کے سامنے پاکستان کا تاثر دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے ملک کے طور پر سامنے آ رہا تھا۔ تاثر میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے اور ریاستوں کے مفادات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اس وقت امریکا کو محفوظ انخلا کے لیے افغانستان میں پاکستان کی ضرورت ہے۔ اسی طرح امریکا نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرے اور یہی بات سعودی عرب نے بھی کہی ہے۔ اس وقت خطے میں پاکستان کی اہمیت بڑھ رہی ہے اور ریاستوں کے لیے پاکستان کا تاثر بھی تبدیل ہو رہا ہے اور تاثر زیادہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔

سردار اشرف خان :امریکی وزارتِ خارجہ کے بیان کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کو تھپکی دی ہے اور اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ٹرمپ نے عمران خان سے کہا تھا کہ وہ مودی کو ہٹلر جیسے القابات سے نہ نوازیں، لیکن انہوں نے اسٹیج پر بھانڈا پھوڑ دیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ امریکی وزارتِ خارجہ کے بیان سے سفارتی محاذ پر پاکستان کو کوئی زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔ امریکا کو افغانستان میں پاکستان کی حد درجہ ضرورت ہے۔

ڈاکٹر ہما بقائی :جہاں تک بھانڈا پھوڑنے کی بات ہے، تو امریکا اس کی بہت سخت سزا دیتا ہے اور پاکستان یہ سزا بھگت چکا ہے۔

کامران ملک :کیا کشمیر کے حوالے سے اسٹیٹس کو برقرار رہے گا یا پھر کوئی تبدیلی آئے گی، جسے کشمیری بھی قبول کر لیں گے؟

سردار اشرف خان :آج کشمیری آزادی کی خاطر جان دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔ اس وقت دونوں ممالک ہی اسٹیٹس کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور جس وقت یہ جمود ٹوٹے گا، تو اس وقت جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔ 

تازہ ترین