• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اگر تم مل جائو زمانہ چھوڑ دیں گے ہم‘‘یہ وہ سُریلا و رسیلا گیت ہے، جس کی شہرت نہ صرف پاکستان میں ہوئی، بلکہ بھارت کے کونے کونے میں اس گیت کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔ اس سدا بہار گیت کو موسیقار ناشاد نے 1974ء میں فلم ’’ایماندار‘‘ کے لیے کمپوز کیا۔ 

 معروف گائیکہ تصورخانم نے اسے ریکارڈ کروایا۔ آج ہم اسی مایہ ناز موسیقار کے فنی دور کا مختصر احوال پیش کریں گے۔ 1918ء میں دہلی میں پیدا ہونے والے ناشاد کا اصل نام شوکت علی دہلوی تھا۔ 

ان کے والد غلام حسین خان اپنے دور کے ایک معروف طبلہ نواز تھے۔ تقسیم ہند سے قبل وہ موسیقار غلام حیدر کے ساتھ سازندے کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ یہ 1947ء کی بات ہے، جب ماسٹر غلام حیدر نے فلم مجبور کے لیے پہلی بار لتا منگیشتر کی آواز کو متعارف کروایا۔ 

شوکت علی نےنئے گلوکاروں کو متعارف کروانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 1953ء میں نخشب جارچوی نے فلم ’’نغمہ‘‘ کی موسیقی کے لیے شوکت علی دہلوی کی خدمات حاصل کیں اور انہیں ’’ناشاد‘‘ کا نام بھی نخشب ہی نے دیا۔ 

اُن دنوں بھارت کی فلمی موسیقی میں نوشاد کا ڈنکا بج رہا تھا،مگر نوشاد صاحب اُن دنوں نخشب سے ناراض تھے۔ فلم ’’نغمہ‘‘ کے گانوں نے پورے بھارت میں دُھوم مچادی۔ خاص طور پر فلم کا یہ گیت ’’بڑی مشکل سے دل کی بے قراری کو قرار آیا‘‘ شمشاد بیگم کی آواز میں آل ٹائم ہٹ سونگ تھا۔ 

ناشاد کا نام 1953ء سے ایک کام یاب موسیقار کے طور پر لیا جانے لگا، جب کہ انہوں نے پہلی بار 1947ء میں فلم ’’دلدار‘‘ کی موسیقی دی۔ دلدار کے بعد ٹوٹے تارے آئیے، غضب نامی فلموں کا میوزک دیا۔ ان تمام فلموں میں شوکت علی اور شوکت حسین کے نام سے انہوں نے موسیقی دی۔ 

ان کے کریڈٹ پر 23بھارتی فلمیں ہیں۔ بھارت میں ان کی کمپوزیشن میں فلم بارہ دری کے چند گیت بے حد مقبول ہوئے، جن میں ’’تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی‘‘ یہ گلوکار طلعت محمود کی آواز تھی۔ لتا اور رفیع کی آواز میں اس فلم کا ایک ڈوئیٹ ’’بُھلا نہیں دینا جی بُھلا نہیں دینا‘‘ آج بھی مقبول ہے۔ 

1958ء میں انہوں نے زندگی یا طوفان کی موسیقی دی۔ اس فلم کے چند مقبول گیتوں میں؎ ’’اے دل والو پیار نہ کرنا‘‘ اور ’’زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے‘‘ شامل ہیں۔ بھارت کے موسیقار نوشاد سے اپنے نام کی مشابہت کا شکوہ انہیں زندگی بھر رہا۔

1964ء میں ناشاد پاکستان آگئے اور یہاں آکر انہوں نے سب سے پہلے نخشب کی فلم ’’میخانہ‘‘ کی موسیقی دی۔ اس فلم کے چند گیت بے حد مقبول ہوئے، جن میں بالخصوص ’’جان کہہ کر جو بلایا تو بُرا مان گئے‘‘ ، آنجہانی گلوکار سلیم رضا نے اس گیت کو گایا۔ ناشاد نے پاکستان میں 58فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کی موسیقی میں ریلیز ہونے والی آخری فلم آزمائش تھی۔ انہوں نے 1966ء میں فلمی دنیا میں ایک نو عمر گلوکارہ رونا لیلیٰ کو پہلی بار فلم ہم دونوں کے لیے متعارف کروایا۔ 

’’ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا‘‘ اس مدھر گیت نے رونا لیلیٰ کو راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ ناشاد نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی سے ایک بیٹا ہے، جب کہ دوسری بیوی گلوکارہ پریم لتا تھیں، جو مسلمان ہو گئیں اور ان کا نام شوکت آراء بیگم ہو گیا۔ 

ان سے پندرہ بچے پیدا ہوئے۔ ان کا ایک بیٹا واجد علی ناشاد ہی صرف موسیقی کی دنیا میں آئے، جب کہ ان کے دیگر صاحب زادے امیر علی، عمران علی اور اکبر علی بھی گائیکی کی دنیا میں آئے ، لیکن مستقل اس پیشے سے وابستہ نہ رہے۔

ناشاد نے ملکہ ترنم نورجہاں سےکئی لاجواب اور شاہ کار گیت گوائے۔1969ء کی فلم ’’سالگرہ‘‘ میں میڈم کے گائے ہوئے یہ دونوں گیت ’’لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں‘‘ اور ’’میری زندگی ہے نغمہ میری زندگی ترانہ‘‘ کی مقبولیت برِصغیر میں آج بھی گونج رہی ہے۔ 

احمد رُشدی کی کھنکتی اور دلوں کو مسحور کرنے والی شوخ آواز کو ناشاد صاحب نے فلم ’’تم ملے پیار ملا‘‘ کے اس گیت میں ریکارڈ کیا۔ ’’گوری کے سر پر سج کے سہرے‘‘ تو ہر طرف اس گیت نے دھوم مچا دی۔ اس کے علاوہ انہوں نے رُشدی صاحب سے جو چند قابل ِ ذکر نغمات گوائے۔ اُن میں ’’گلاب جیسی تیری یہ صورت‘‘ ’’چہرے پہ بناوٹ کا غصہ‘‘ ’’میرے دل کو یہ یقین ہے‘‘۔

آخری ایام میں وہ صاحب ِ فراش ہو گئے۔ انہیں برین ہیمبرج ہوا اور پھر وہ کومے کی حالت میں 3؍جنوری 1981ء کو دُنیا سےکوچ کر گئے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین