حضرت عیسیٰ علیہ السّلام بنی اسرائیل میں مبعوث ہونے والے آخری نبی تھے۔ آپؑ نے اپنی قوم کو خاتم الانبیاء، حضرت محمّد مصطفیٰﷺ کی آمد کی خُوش خبری دی۔
قرآنِ کریم میں ارشاد ہے’’ اور جب عیسیٰ ؑابنِ مریمؑ نے کہا’’ اے بنی اسرائیل! مَیں تمہارے پاس اللّٰہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں اور ایک پیغمبر کی، جو میرے بعد آئیں گے، جن کا نام احمدؐ ہوگا، بشارت سُناتا ہوں‘‘( سورۃ الصف 6)۔
حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے بعد تقریباً چھے سو سال تک کوئی نبی نہیں آیا۔ پھر اللّٰہ تعالیٰ نے ہمارے آقا، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا اور اُن پر آخری آسمانی کتاب، قرآنِ مجید نازل فرمائی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر انجیل نازل فرمائی گئی تھی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ اور ہم نے ان پیغمبروں کے بعد عیسیٰ ؑ ابنِ مریمؑ کو اپنے سے پہلی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والا بنا کر بھیجا اور ہم نے انجیل عطا کی۔ جس میں ہدایت اور نور تھا‘‘ (سورۃ المائدہ 46)۔
ابنِ جریر نے تحریر کیا ہے کہ’’ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر جب انجیل نازل ہوئی، تو آپؑ کی عُمر مبارک تیس سال تھی اور نبوّت کے تین سال بعد ،یعنی تینتیس برس کی عُمر میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو آسمان پر اُٹھا لیا‘‘ (ابنِ کثیر)۔
قرآنِ مجید میں تذکرہ
قرآنِ کریم کی تیرہ سورتوں میں مختلف ناموں سے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا تذکرہ موجود ہے۔26 مقامات پر عیسیٰ علیہ السّلام،23 مقامات پر ابنِ مریمؑ، 11 جگہوں پر مسیح ؑاور ایک مقام پر عبداللہ کہا گیا ہے۔ قرآنِ کریم کی انیسویں سورہ ’’سورۂ مریم‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی والدۂ محترمہ کے نام پر ہے، جس میں حضرت مریمؑ بنتِ عمران اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا قصّہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔
اس کے علاوہ، قرآنِ کریم کی تیسری سورہ، سورۂ آلِ عمران، حضرت مریمؑ کے والد ماجد کے نام سے منسوب ہے، جس میں حضرت مریمؑ کی پیدائش کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ قرآنِ کریم کی پانچویں سورہ، سورۃ المائدہ میں اُس کھانے کا ذکر ہے، جس کی فرمائش حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے حواریوں نے کی تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے بارگاہِ خداوندی میں دُعا کی، جس پر آسمان سے مآئدہ یعنی کھانے کے خوان کا نزول ہوا۔
بیٹے کی بشارت
سورۂ مریم کی آیات 16 سے 35 کے درمیان حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ حضرت مریمؑ بیتُ المقدِس سے متصل حجرے میں قیام پذیر تھیں۔
ایک دن وہ مسجد کے مشرقی کونے میں عبادت یا کسی اور مقصد سے تشریف لے گئیں اور پردہ کر لیا۔ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ وہ حسبِ عادت یک سوئی کے ساتھ عبادتِ الٰہی میں مشغول ہونے کے لیے حجرے کے مشرقی جانب کسی گوشے میں تشریف لے گئیں۔
حضرت ابنِ عباسؓ سے منقول ہے کہ نصاریٰ نے جو مشرق کی جانب اپنا قبلہ بنایا اور اُس جانب کی بڑی تعظیم کرتے ہیں، اُس کی یہی وجہ ہے۔ حضرت مریمؑ اُس گوشے میں تنہا تھیں کہ اچانک حضرت جبرائیل امینؑ انسانی شکل میں تشریف لائے۔ حضرت مریمؑ نے ایک اجنبی شخص کو یوں اپنے قریب دیکھا، تو گھبرا گئیں اور کہنے لگیں’’مَیں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں۔
اگر تُو اللّٰہ سے ڈرتا ہے، تو یہاں سے چلا جا۔‘‘ حضرت جبرائیلؑ نے فرمایا’’ تم مجھ سے ڈرو نہیں۔ مَیں تو پروردگار کا بھیجا ہوا فرشتہ ہوں اور تمہیں ایک پاکیزہ بیٹا دینے کی خُوش خبری لے کر آیا ہوں۔‘‘ حضرت مریمؑ نہایت حیران اور پریشان ہوئیں اور تعجّب سے فرمایا’’ بھلا میرے ہاں بچّہ کیسے ہوسکتا ہے؟ مجھے تو کسی انسان نے ہاتھ تک نہیں لگایا اور نہ ہی مَیں بدکار ہوں۔‘‘
حضرت جبرائیلؑ نے فرمایا’’ ہاں! بات تو یہی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’ یہ میرے لیے بہت آسان ہے اور ہم اسے اپنی قدرتِ تخلیق کے لیے نشانی بنانا چاہتے ہیں۔
اس سے قبل ہم نے تمہارے باپ، آدمؑ کو مرد اور عورت کے بغیر اور تمہاری ماں، حوّا کو صرف مرد سے پیدا کیا اور اب عیسیٰ علیہ السّلام کو پیدا کر کے چوتھی شکل میں بھی پیدا کرنے پر اپنی قدرت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور وہ ہے، صرف بغیر مرد کے پیدا کرنا۔‘‘ دراصل، اللہ تعالیٰ تو قادرِ مطلق ہیں، وہ جب جہاں اور جس طرح چاہیں پیدا کر سکتے ہیں۔ وہ بے جان چیز سے جان دار کو پیدا کر سکتے ہیں اور جان دار سے بے جان۔
حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش
بیٹے کی بشارت کے بعد حضرت جبرائیلؑ نے آپؑ پر پھونک ماری اور وہاں سے چلے گئے۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت مریمؑ کو بچّے کی پیدائش کے آثار محسوس ہونے لگے۔
جیسے جیسے پیدائش کے دن قریب آتے جا رہے تھے، آپؑ کی پریشانی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ جب پیدائش کا وقت قریب آیا، تو آپؑ لوگوں کے خوف سے بیتُ المقدِس سے تقریباً 9 میل دُور جنگل کی جانب ایک پہاڑی’’ کوہِ سراۃ‘‘ کی جانب چلی گئیں۔
یہی وہ جگہ ہے، جو بعد میں’’ بیت اللحم‘‘ کہلائی۔ جب دردِ زہ شروع ہوا، تو آپؑ ایک کھجور کے درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں۔ زچگی کی تکلیف کی شدّت اور دُنیا والوں کے خوف نے آب دیدہ کر دیا۔
کہنے لگیں’’کاش! مَیں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور لوگوں کی یاد سے بھی بھولی بسری ہو جاتی۔‘‘
علماء فرماتے ہیں کہ اُنہوں نے موت کی آرزو اس لیے کی کہ وہ عزیز و اقارب، خاندان، برادری اور لوگوں کو کس طرح مطمئن کر سکیں گی، جب کہ کوئی اُن کی صداقت کی تصدیق کرنے والا بھی نہیں۔ اُن کی شہرت ایک نیک، پارسا اور زاہدہ کے طور پر تھی۔لہٰذا، اُن کے لیے یہ تصوّر ہی بڑا رُوح فرسا اور تکلیف دہ تھا کہ لوگ اُنہیں بدکار سمجھیں۔
آغوشِ مادر میں کلام
ابھی حضرت مریمؑ اَن جانے اندیشوں اور وسوسوں میں گِھری ہوئی تھیں کہ حضرت جبرائیلؑ نے وادی کے نیچے سے آواز دی’’اے مریمؑ! پریشان نہ ہوں، تمہارے پروردگار نے تمہارے قدموں تلے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے اور ذرا اس کھجور کے درخت کو ہلائو، دیکھو یہ تمہارے سامنے تر و تازہ کھجوریں گرا دے گا۔ اب تم اطمینان کے ساتھ یہ تازہ کھجوریں کھائو، چشمے کا پانی پیو اور بچّے کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو اور اگر تمہیں کوئی انسان نظر پڑ جائے، تو اشارے سے کہہ دینا کہ’’ مَیں نے روزہ رکھا ہوا ہے، مَیں آج کسی شخص سے بات نہیں کر سکتی۔‘‘
اُس وقت کی شریعت میں روزے میں کھانے پینے کے ساتھ بولنا بھی منع تھا۔ حضرت جبرائیلؑ کے اس پیغام سے حضرت مریمؑ کو اطمینان اور تسلّی ہوگئی کہ اب میرا رَبّ مجھے بدنامی اور رُسوائی سے بچا لے گا۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ ولادت کے چالیس روز بعد جب طہارت ہو چُکی، تو حضرت مریمؑ اپنے گھر والوں کے پاس واپس آئیں۔
لوگ نومولود بچّے کو گود میں دیکھ کر حیران رہ گئے اور بدگمان ہو کر بولے’’اے مریمؑ! یہ تو، تُو نے بڑے گناہ کا کام کیا، نہ تو تیرا باپ بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں بدکار تھی۔‘‘ حضرت مریمؑ نے جبرائیل امینؑ کی ہدایت کے مطابق بچّے کی طرف اشارہ کر دیا۔ روایت میں ہے کہ جب خاندان نے حضرت مریمؑ کو ملامت کرنا شروع کیا، تو اُس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السّلام دُودھ پی رہے تھے۔
جب اُنہوں نے لوگوں کی ملامت بَھری باتیں سُنیں، تو دُودھ پینا چھوڑ دیا اور اپنی بائیں کروٹ پر سہارا لے کر اُن کی جانب متوجّہ ہوئے اور انگشتِ شہادت سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا’’انّی عبداللہ‘‘ یعنی’’ مَیں اللہ کا بندہ ہوں‘‘ اور پھر اللہ کی طرف سے نبوّت اور کتاب ملنے کی خبر دی۔
اُس کے بعد فرمایا’’ اللہ نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا پابند بنایا اور جب تک مَیں زندہ ہوں، مجھے اپنی والدہ کا حق ادا کرنے والا بنایا اور مجھ کو سرکش اور بدبخت نہیں بنایا اور اللہ کی سلامتی ہے مجھ پر، جب مَیں پیدا ہوا، جب مَیں مروں گا اور جب دوبارہ زندہ کرکے اُٹھایا جائوں گا‘‘(سورۂ مریم)۔ لوگوں نے جب نومولود بچّے کے منہ سے یہ الفاظ سُنے، تو حیرت زدہ رہ گئے اور اُنہیں یقین ہوگیا کہ بی بی مریمؑ پاک دامن ہیں اور یہ بچّہ، اللہ کا برگزیدہ بندہ ہے۔ اس واقعے کے بعد خاندان اور بنی اسرائیل کے سمجھ دار لوگ دونوں کی بڑی عزّت کرنے لگے اور اُنہیں خیر و برکت کا باعث سمجھنے لگے۔
حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کا مقام
جودیہ کے پہاڑوں میں واقع’’ بیتُ اللحم‘‘ فلسطین کا ایک بہت بڑا گائوں ہے، جو سطحِ سمندر سے 800 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ بیتُ اللحم کے جنوب میں چند میل کی مسافت پر کوہِ سراۃ (کوہِ ساعیر) کے دامن میں وہ تاریخی مقام ہے، جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پیدا ہوئے ۔
اس غار سے متصل کونے میں ایک پتھر نصب ہے، جس میں ایک گول سوراخ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس جگہ کھجور کا وہ درخت تھا، جس کے متعلق قرآنِ مجید میں ذکر ہے کہ’’ اے مریمؑ! اسے ہلائو، تو کھجوریں گریں گی‘‘ (نشاناتِ ارضِ قرآن ص 211)۔
مِصر کی جانب ہجرت
حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ ابن مریمؑ گود میں بات چیت کے بعد کلام کرنے سے رُک گئے تھے، پھر جب لڑکپن کو چُھونے لگے، تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی زبان پر حکمت اور دانائی کی باتیں جاری کر دیں۔ جب آپؑ سات سال کے ہوئے، تو حضرت مریمؑ نے آپؑ کو معلّم کے پاس درس گاہ میں بھیجنا شروع کر دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام بچپن ہی میں اللہ کی طرف سے الہام کردہ عجائبات کا نظارہ کرتے تھے۔
یہ بات یہودیوں میں پھیل گئی، تو اُنہوں نے آپؑ کے خلاف منصوبے بنانے شروع کر دیئے، حالاں کہ آپؑ کے خاندان کے لوگ آپؑ کی اور حضرت مریمؑ کی بہت عزّت کرتے تھے۔ یہود نے آپؑ اور آپؑ کی والدہ کے متعلق طرح طرح کے اعتراضات شروع کر دیئے۔
یہ وہ وقت تھا کہ جب حضرت زکریا علیہ السّلام بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے، لیکن یہود اپنی سابقہ روایات اور عاداتِ خبیثہ کے باعث حضرت زکریا علیہ السّلام کی نافرمانی اور اُن کی تکذیب کرتے تھے۔ اُن لوگوں نے مختلف گروہوں میں تقسیم ہو کر مشرکانہ طور طریقے اختیار کر لیے تھے، یہاں تک کہ اپنی خواہشات کے مطابق تورات میں بھی بہت زیادہ ردّوبدل کر لیا تھا۔
اُن کے عقائد و اعمال دن بدن بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے تھے۔ جب بیتُ المقدِس کے حالات خراب ہونے لگے، تو حضرت مریمؑ آپؑ کو لے کر اپنے عزیزوں کے پاس مِصر چلی گئیں۔ تیرہ سال بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے مِصر سے واپس ہوئیں۔ پھر اللہ نے آپؑ کو انجیل عطا فرمائی اور تورات کی تعلیم دی۔ اس کے علاوہ، مُردوں کو زندہ کرنا، کوڑھیوں کو صحیح کرنا اور دُوسرے معجزات سے نوازا۔
معجزات، انعامات اور فضیلتیں
اللہ تبارک تعالیٰ نے ہر نبی کو اُس کے زمانے کے حالات و مشاہدات کے مطابق معجزے عطا فرمائے تاکہ اُن کی صداقت، افضلیت اور برتری نمایاں رہے۔ اسی طرح، اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو بھی معجزے اور فضیلتیں عطا فرمائیں۔ سب سے پہلا معجزہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا بغیر والد کے پیدا ہونا تھا۔ آغوشِ مادر میں کلام کر کے اپنی والدہ کی پاکیزگی اور صداقت کی گواہی دی۔ مٹّی کا پرندہ بناتے، اُس پر پھونک مارتے، تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا۔
پیدائشی نابینا کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے، تو اُس کی بینائی ایسے آ جاتی، جیسے کبھی نابینا نہ ہوا ہو۔ برص، جذام اور کوڑھ کے مریضوں کو اللہ کے حکم سے صحت یاب کرتے۔ مُردوں کو زندہ کر دیتے۔ لوگ جو کچھ گھروں سے کھا کر آتے اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے، اُس کی تفصیل بتا دیتے۔ اللہ نے یہود و نصاریٰ کی پھانسی سے بچا کر زندہ سلامت آسمانوں پر اُٹھا لیا۔
قیامت کے قریب دوبارہ دُنیا میں تشریف لائیں گے اور لوگوں سے کلام کریں گے، جس کا اشارہ سورۂ آلِ عمران میں ہے کہ’’ ماں کی گود میں بھی اور اُدھیڑ عُمر میں بھی کلام کریں گے۔‘‘ جب آپؑ کو دُنیا میں دوبارہ بھیجا جائے گا، تو آپؑ اُمّتِ محمّدیہﷺ کی قیادت کے لیے بہ حیثیت خلیفۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اُمتی کے تشریف لائیں گے۔ آپؑ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں گے۔ دجّال اور خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب توڑ ڈالیں گے۔ زمین میں اَمن و برکت ہوگی اور دُنیا میں صرف اسلام رہ جائے گا۔
حواری کون تھے؟
حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا کوئی گھر تھا اور نہ ہی بیوی بچّے۔ آپؑ شہر شہر، قریہ قریہ دینِ حق کی تبلیغ فرماتے اور لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچاتے۔ حسبِ ضرورت اپنے معجزات سے اُن کی مدد بھی فرماتے، لیکن ان سب کے باوجود یہودیوں کی اکثریت آپؑ کو اذیّت دینے اور تکذیب کرنے سے باز نہ آتی۔ دراصل، بنی اسرائیل آپؑ کی نبوّت کے منکر رہے۔ البتہ اُن میں سے کچھ لوگ ایسے ضرور تھے، جو آپؑ کے پیروکار اور ہم درد و غم خوار تھے۔ وہ آپؑ کے ساتھ دین کے کام میں مشغول رہتے۔ قرآنِ کریم نے اُنہیں’’ حواری‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ جب حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اُن کا کفر محسوس کرلیا، تو کہنے لگے’’ اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے؟‘‘ حواریوں نے جواب دیا’’ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں(آپؑ کے) مددگار ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپؑ گواہ رہیے کہ ہم تابع دار ہیں‘‘ (سوۂ آلِ عمران، 25)۔ لفظ ’’حواری‘‘ حور سے ماخوذ ہے، جس کے لغوی معنیٰ’’ سفیدی‘‘ کے ہیں۔ اصطلاح میں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے مخلص ساتھیوں کو یہ لقب دیا گیا ہے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو صحابی کے لقب سے نوازا گیا۔
مفسرّین نے بہت ہی قریبی حوارییّن کی تعداد بارہ بتلائی ہے۔ حواریّین، حواری کی جمع ہے اور اس کے معنیٰ’’انصار‘‘ یعنی مددگار کے ہیں۔ جیسے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ’’ہر نبی کا کوئی حواری یعنی مددگار ہوتا ہے، میرے حواری زبیرؓ ہیں‘‘(صحیح بخاری، کتاب الجہاد)۔ ( جاری ہے)