• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے تین بڑے معاشی ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ملک جاپان جس کی آبادی ساڑھے بارہ کروڑ، زرمبادلہ کے ذخائر چودہ سو ارب ڈالر سے زائد، فی کس آمدنی چالیس ہزار ڈالر سالانہ، جہاں کے تین شہر دنیا کے پُرامن ترین شہروں میں شامل ہوں، جہاں کی دو طرفہ عالمی تجارت کا حجم چودہ سو ارب ڈالر ہو، غرض بیرونی دنیا نے جاپان کے لئے سونے کی چڑیا اور امن کی فاختہ جیسے نام رکھے ہوں وہاں بھی بعض دفعہ ایسے مسائل جنم لیتے ہیں کہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی نظامِ قدرت کے سامنے حکومت اور انسان بے بس ہو جاتے ہیں۔ 

دوسری جنگِ عظیم سے پہلے اور بعد میں جاپان میں جو قدرتی اور جنگی تباہی ہوئی دنیا کے کسی ملک نے ایسی تباہی نہیں دیکھی لیکن اللہ تعالیٰ نے جاپانی قوم کو ہمت اور طاقت بھی عطا کی ہے جو ہر مشکل کے بعد پہلے سے زیادہ قوت سے سنبھل کر سامنے آتی ہے۔ 

آئیے جاپان میں گزشتہ صدی سے لے کر آج تک بڑی جنگی اور قدرتی تباہیوں کی تاریخ کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

پندرہ جون 1896کو جاپان میں سانریکو نامی آٹھ اعشاریہ پانچ شدت کا زلزلہ آیا جس میں بائیس ہزار افراد ہلاک ہوئے اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، جس کے بعد یکم ستمبر 1923میں جاپان ٹوکیو اور اس کے اطراف کے علاقوں میں خطرناک زلزلہ آیا جس کی شدت آٹھ اعشاریہ تین تھی اس زلزلے کو گریٹ کانتو کا نام دیا گیا جس میں ایک لاکھ بیالیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ 

پھر مارچ 1927کو خطرناک زلزلہ آیا جسے کیتا تانگو کا نام دیا گیا جس میں تین ہزار سے زائد جاپانی شہری ہلاک ہوئے، دو مارچ 1933میں سانریکو نامی زلزلہ آیا جس کی شدت آٹھ اعشاریہ چار ریکارڈ کی گئی جس میں تین ہزار سے زائد جاپانی موت کا شکار ہوئے۔ 

چند سال سکون سے گزرے کہ دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوگیا جہاں ایک جانب تو جاپان عالمی جنگ میں نقصان اٹھاتا رہا وہیں7دسمبر 1944میں آنے والے زلزلے میں بارہ سو سے زائد شہری ہلاک ہوئے جبکہ اگلے سال ہی13جنوری 1945کو خطرناک زلزلے میں تین ہزار کے لگ بھگ شہری ہلاک ہو گئے تھے، ساتھ ہی مارچ 1945میں ٹوکیو میں امریکی اور اتحادی افواج کی بمباری سے ایک لاکھ افراد ہلاک ہو گئے تھے، تاہم اتنی بڑی ہلاکتیں اسی سال اگست میں ہونے والے ہیروشیما اور ناگا ساکی میں ایٹم بموں کے حملوں میں ڈھائی سے تین لاکھ افراد کی ہلاکت اور شہروں کی تباہی کے سبب دنیا کی نظروں میں نہ آسکیں لیکن جاپان کے عوام آج بھی ان ہلاکتوں کو یاد کرتے ہیں۔ 

اس کے بعد بیس دسمبر 1946کو آٹھ اعشاریہ ایک شدت کے زلزلے سے ڈیڑھ ہزار افراد ہلاک ہوئے جبکہ صرف دوسال بعد اٹھائیس جون 1948کو آنے والے زلزلے میں چار ہزار افراد کی ہلاکت ہوئی، اسکے بعد بھی کئی بڑے زلزلے آئے لیکن ان میں ہلاکتوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی تاہم سترہ جنوری 1995کو آنے والے زلزلے میں سات ہزار جانوں کا نقصان ہوا۔ 

کچھ اور زلزلے آئے جن کی شدت بھی زیادہ تھی تاہم حکومتی تیاریوں کے سبب اموات کی تعداد کم رہی تاہم گیارہ مارچ 2011کو جاپان میں نو اعشاریہ ایک شدت کا خطرناک زلزلہ آیا جس کے ساتھ سونامی نے بھی جاپان میں شدید تباہی مچائی۔ 

اس زلزلے اور سونامی سے جاپان میں پچیس ہزار افراد ہلاک اور ہزاروں لاپتا ہو گئے۔ اس کے بعد بھی بہت سے زلزلوں نے جاپانی قوم کو نقصان پہنچایا تاہم اب تیرہ اکتوبر کو جاپان میں آنے والے طوفان نے جاپانی عوام کو خطرناک امتحان میں مبتلا کردیا ہے، جاپانی میٹرولوجیکل ایجنسی نے طوفان سے دو روز قبل ہی انتباہ کرنا شروع کردیا تھا کہ یہ طوفان جاپانی تاریخ کا بدترین طوفان ثابت ہو سکتا ہے لہٰذا لوگ گھروں میں رہیں۔ 

کئی دنوں کا راشن جمع کرلیں، علاقوں اور گھروں میں پانی داخل ہونے کی صورت میں محفوظ مقامات پر جانے کے بجائے گھر کی اوپری منزلوں پر قیام کریں، حکومتی اعلان سے لوگوں میں زبردست خوف پھیل گیا تاہم خوش قسمتی سے طوفان ٹوکیو سے ٹکرانے سے قبل اپنی شدت پانچ سے کم کرکے دو پر لاچکا تھا جس سے مزید نقصان ہونے سے بچ گیا لیکن دریائوں اور ڈیموں میں پانی کی سطح بھر جانے سے پانی شہری علاقوں میں داخل ہوگیا۔

دس لاکھ سے زائد لوگوں کو اپنے گھروں سے محفوظ علاقوں میں منتقل ہونا پڑا، پینسٹھ افراد ہلاک ہوئے، دو سو سے زائد زخمی، درجنوں لاپتا بھی ہوئے، سولہ سو فلائٹس منسوخ ہوئیں، گاڑیاں پانی میں ڈوب گئیں، ہزاروں گھر زیر آب آگئے جبکہ جاپان میں مقیم پاکستانیوں کو بھی زبردست مالی نقصان اٹھانا پڑا، ناگانو کین میں مقیم سینئر پاکستانی کی پارکنگ میں موجود چالیس گاڑیاں زیر آب آگئیں جبکہ کئی اور پاکستانی بھی کروڑوں کی گاڑیوں سے محروم ہوگئے جبکہ میتو میں ایک مسجد میں پانی بھر گیا۔ 

سفیر پاکستان امتیاز احمد نے بھی پاکستانیوں سے رابطے کے لئے ہیلپ لائن قائم کردی تھی۔ غرض جاپانی عوام ایک بار پھر قدرت کی جانب سے آنے والی ایک اور تباہی کا شکار ہیں لیکن ہر بار کی طرح اپنی محنت اور لگن سے اس مشکل سے نکلنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ 

اگر خدانخواستہ ایسا خطرناک طوفان پاکستان میں آجائے تو کتنی خطرناک تباہی ہوگی اور ہماری حکومت کس طرح اس مشکل ترین صورتحال پر قابو پاسکےگی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو ایسی قدرتی آفات سے محفوظ رکھے۔ آمین!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین