• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وکلاء کمپلیکس اراضی ہوٹل کوکیوں دی، پی اے سی ذیلی کمیٹی نے وضاحت مانگ لی

اسلام آباد( نامہ نگار ) وکلاء کمپلیکس کیلئےلیز پر لی گئی اربوں روپے کی قیمتی اراضی کیسے خلاف قواعدایمبسیڈر ہوٹل کودے دی دی گئی ، پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی نے وضاحت کے لیےسابق صدر سپریم کورٹ بار علی ظفر،ہوٹل کے مالک ظفراللہ مروت، چیف کمشنر اسلام آباد، چئیرمین سی ڈی اے اور معاونت کےلیے صدر سپریم کورٹ بار کو آئندہ اجلاس میں طلب کر لیا، ذیلی کمیٹی کا اجلاس گزشتہ روز کنونئیر نورعالم خان کی زیرصدارت ہوا، کنونئیر کمیٹی نے کہاکہ سیف سٹی پراجیکٹ بے ضابطگیوں میں جو بھی ملوث ہے ان کے نام ظاہر کیے جائیں ، نیب وعدہ معاف گواہ کا ڈھونگ رچاتی ہے ،یہ ڈھونگ نہیں چلے گا۔ ڈی جی آڈٹ مقبول گوندل نےکمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایاکہ 8مارچ 2011 کو جی فائیو ٹو میں 4ہزار 5سو سکوئریارڈ سپریم کورٹ بار کو الاٹ کی گئی یہ زمین آبپارہ کےپاس تھی جس کو 33سال کےلیے لیز پر دیا گیا جس پر وکلاء کے لیے کمپلیکس بننا تھا تاکہ دوسرے شہروں سے آئے وکیل یہاں ٹھہر سکیں ۔بعد میں ظفر اللہ مروت کو یہ زمین دے دی گئی جس پر ہوٹل بن گیا جس میں معاہدہ کیا گیا کہ ہر ماہ 27لاکھ روپے ظفراللہ مروت دیں گے معاملے پر پیرا بنا تو ڈی سی ، سی ڈی اے نے سپریم بار کورٹ کو نوٹس ایشو کیا جس پر بار نے ہائی کورٹ سےرجوع کرلیا۔2016 میں معاملے کی آخری بار ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی جس پر نور عالم خان نے کہاکہ چیف جسٹس ہائیکورٹ کو خط لکھا کر ان کے نوٹس میں یہ معاملہ لایاجائے کہ لیز کی زمین آگے نہیں دی جاسکتی۔
تازہ ترین