اسلام آباد (نمائندہ جنگ) اسلام آباد ہائیکورٹ نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے مجوزہ دھرنے کیخلاف درخواستیں نمٹاتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج کی اجازت دینا ضلعی انتظامیہ کا کام ہے ، انتظامیہ احتجاج کرنے اورنہ کرنے والے تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ اور احترام کرے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ غیر مسلح پرامن احتجاج ہر شخص کا آئینی حق ہے، جسے کوئی عدالت ختم نہیں کرسکتی، ضلعی انتظامیہ قانون کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن کی درخواست پرفیصلہ کرے، شہریوں کے حقوق کا تحفظ ریاست کا کام ہے۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ بادی النظرمیں احتجاج کرنیوالوں کی نیت ٹھیک نہیں لگ رہی، عوامی حقوق متاثرہونگے۔
جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ ہم اور آپ انتظامیہ نہیں، جنکا کام ہے انہیں کرنے دیں۔ بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کر کے ریمارکس دئیے کہ احتجاج کسی بھی شہری کا بنیادی حق ہے ، دنیا کی کوئی بھی عدالت یہ حق ختم نہیں کر سکتی ۔
اس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ بادی النظرمیں دھرنے اور احتجاج کا اعلان کرنے والوں کی نیت ٹھیک نہیں لگ رہی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ احتجاج کرنے والوں نے انتظامیہ کو درخواست دی ہے ، تحریک انصاف کواحتجاج کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی جس پر اسی عدالت نے انہیں اجازت دی تھی۔ انتظامیہ کو احتجاج کو پرامن بنانے کی ہدایت بھی کی تھی۔
ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی نے دھرنے سے عوام کے حقوق متاثر ہونے کا موقف اپنایا تو چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ ہم اور آپ انتظامیہ نہیں ، جن کا کام ہے کرنے دیں۔
عدالت نے جے یو آئی (ف) کے کےسربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے مجوزہ دھرنا کو روکنے سے متعلق درخواستیں نمٹاتے ہوئے کہا کہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ ریاست کا کام ہے ، ضلعی انتظامیہ قانون کے مطابق مولانا فضل الرحمن کی درخواست کا فیصلہ کرے ، انتظامیہ احتجاج کرنے اورنہ کرنے والے تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ بھی کرے۔