• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی(تجزیہ:مظہر عباس) پاکستان پیپلز پارٹی کو لاڑکانہ میں پی ایس-11سے مسلسل دوسری شکست پر غوروفکرکرنےکی ضرورت ہے کہ کیوں وہ 2013کےبعدسےمسلسل ہار رہے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں وہ اپنےناقابلِ شکست لیاری کےحلقے سے بھی ہار گئے تھے۔

پارٹی کو اسے ایک اور’ویک اپ‘ کال کے طورپردیکھناچاہئیے اوربے نظیر بھٹو کے بعدکےدورمیں اپنی سیاست اور پالیسییوں پر نظر ثانی کرنی چاہیئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ایس-11 کے ضمنی انتخابات اسی پی ایس سیٹ کےالیکشن تھے جہاں ماضی میں بھی پارٹی کو شکست ہوچکی ہے، لیکن چھ سال قبل لیار میں کیا ہوا جہاں پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹواپنی ماں اور ناناکی طرح اچھا آغاز نہ کرسکے۔

لیاری ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا اور لاڑکانہ کی شکست پی پی پی اور بلاول کیلئے کسی وارننگ سے کم نہیں۔ اگر پی پی پی نےعام اور ضمنی انتخابات میں یکے بعد دیگرے شکست پر لاہورسے لیاری اوراب لاڑکانہ تک دھاندلی کے الزامات سے قطع نظر ہوکرتحقیقات کی ہوتیں تو حال ہی میں پی ایس-11کےضمنی انتخابات میں شکست کوٹالا جاسکتاتھا، اسےپارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کےعلاوہ کسی اورنےنہیں اچھالاتھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ امیدوارمعظم عباسی جنھوں نےپی پی پی کےجمیل سومروجو بلاول بھٹو کےترجمان بھی تھے،کوشکست دی، وہ ایک نامور پی پی پی رہنمااور70کی دہائی میں سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی مرحوم ڈاکٹراشرف عباسی کے بیٹے ہیں۔ وہ اور ان کی فیملی بےنظیربھٹوکی شہادت تک پی پی پی کے ساتھ منسلک رہے۔ بی بی کے بعد ان کےسابق صدرآصف زرداری سے اختلافات پیدا ہوئےاور ان کے خاندان نےعلحیدگی اختیار کرلی۔ گزشتہ عام انتخابات میں انھوں نے پی پی پی سندھ کےصدرنثارکھوڑوکی بیٹی کوشکست دی۔

بلاول بھٹو کوابھی کافی فاصلہ طے کرناہےلیکن حقیقت یہ ہے کہ بی بی کےبعد پی پی پی بحال نہیں ہوسکی۔ 2013 کےبعدسےجس طرح پنجاب اور خیبرپختونخواسے وہ ختم ہوئے، وہ غیرمثالی ہے۔ پی پی پی اور بلاول کو پنجاب میں پی ٹی آئی کو چیلنج کرنےکیلئے متبادل سیاست کے ساتھ میدان میں آنا ہوگااور اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ سندھ میں اچھی مثال قائم کریں، جہاں وہ 2008کےبعد سےاقتدارمیں ہیں۔

اس کے علاوہ انھیں وفاق اور جنوبی پنجاب میں کچھ مختلف کرناہوگاتاکہ وہ دوبارہ جگہ حاصل کرسکیں۔ اس کے برعکس انھیں سندھ میں مشکلات کاسامناہے جہاں تاحال ان کی گرفت مضبوط ہے لیکن انھیں کچھ مضبوط حلقوں میں نتائج کو نظرانداز نہیں کرناچاہیئے۔

معظم عباسی جنھیں اثاثے ظاہر نہ کرنےپرنااہل کیاگیاتھا وہ دوبارہ منتخب ہوگئے اورعباسی فیملی اورپی ٹی آئی-جی ڈی اے اتحادکیلئےیہ ایک اچھی بات ہے۔ رشید سومروکی زیرِ قیادت جےیوآئی (ف)کاپہلو نظراندازنہیںکیا جاسکتا کیونکہ اس کامضبوط ووٹ بینک ہے۔ ماضی میں پی پی پی میرمرتضی بھٹوکے ساتھ بھی پی پی پی یہ سیٹ ہارگئی تھی، جب بیگم نصرت بھٹو نےپی پی پی امیدوارکےخلاف اپنے بیٹےکیلئے مہم چلائی تھی۔

لہذا پی پی پی کیلئے یہ کبھی محفوظ سیٹ نہیں رہی لیکن جس طرح سے پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹواور بہن آصفہ بھٹونے پارٹی کے امیدوارجمیل سومروکیلئے مہم چلائی اُس نے اِس چھوٹے سے الیکشن کو بھی بڑا بنادیا۔

پی پی پی کے اندرکافی لوگوں کامانناہے کہ ان حالات میں غالباًسومروبہترین انتخاب نہیں تھےکیونکہ پہلےدن سے ہی یہ سیٹ کافی مشکل تھی اور اپوزیشن نے اس پربھٹوکیلئےاپنےآبائی علاقے لاڑکانہ میں شکست ہونےپرخوشی منائی ہے،جوسچ نہیں ہوسکتالیکن یقیناًیہ ایک’ویک اپ کال‘ہے۔

پی پی پی نےنتائج کوالیکشن ٹربیونل میں چیلنج کرنےکافیصلہ کیاہےجوہرامیدوارکاحق ہےاورایک آزادمبصرگروپ فافن کی رپورٹ نےبھی انھیں کچھ امیددلائی ہے،پارٹی کیلئےیہ بہترہوگاکہ 2008کےبعداقتدارمیں رہنے کےباعث پارٹی سڑکوں،سیوریج،صحت اورگورننس ایشوزسمیت آگےکی مشکلات کودیکھے۔

ہمارےسیاسی کلچرکایہ مسئلہ ہےکہ کوئی بھی عزت کےساتھ شکست کوتسلیم نہیں کرتا۔ اس کی بجائے نتائج کیلئے وہ مخالفین یا خفیہ قوتوں پر الزام تراشی کرتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ پاکستان میں انتخابات ’کنٹرول‘ کیے جاتے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی ان جماعتوں میں کئی سنجیدہ مسائل ہیں۔ پی پی پی کی لیاری میں سکشت کی ایک وجہ سابق سابق صدر آصف زرداری اور اس وقت کے وزیرِ داخلہ ڈاکٹرذوالفقار مرزا کافیصلہ تھاکہ علاقے کو بدنامِ زمانہ عزیربلوچ کے حوالے کردیاگیااور انھیں مکمل طورپر مسلح کردیاگیا تاکہ وہ ایم کیوایم کے جنگجوئوں کا مقابلہ کرسکیں۔

اس عمل میں عزیرکو علاقے کا مکمل کنٹرول مل گیا اور اسے2011میں ایک لاکھ اسلحہ لائسنس(مرزاخود بھی اس کا دعویٰ کرتے ہیں) جاری کیےگئے۔ اس اقدام نے پی پی پی کو بری طرح نقصان پہنچایا اور پارٹی کا سیاسی کیڈراس حد تک ناراض ہوا کہ سابق ایم این اے نبیل گبول جو کئی انتخابات جیتے تھے انھوں نے پارٹی چھوڑ دی ایم کیوایم میں شمولیت اختیار کرلی کیونکہ انھیں خوف تھا کہ عزیر کا گینگ انھیں مار سکتا تھا۔ پارٹی چھوڑنے سے قبل انھوں نے آصف زرداری سے درخواست کی کہ اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کریں۔

ایک اور عنصر بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی تھی اور لیاری کے نتائج سے پتہ لگتا ہے کہ تحریکِ لبیک دوسرے نمبر پر آئی۔ لاڑکانہ میں بھی جے یوآئی (ف) کو دوسرا فیصلہ کن عنصر سمجھا گیا اور اس کا ووٹ بینک مسلسل بڑھ رہاہے۔

لہذا بلاول اور پی پی پی کو ایک چیلنج کا سامناہے اور کچھ اچھی مثالیں قائم کرکےاپنی پوزیشن بہتر کرنے کیلئے تاحال وقت ہے۔ گورننس کےمسائل اور مضبوط بیانیہ سندھ میں ان کی مدد نہیں کرسکتا بلکہ پنجاب اورکےپی میں بھی اس سے ان کی مددہوگی۔ انہیں محض نعروں اور پی ٹی آئی حکومت پر تنقید کرنے سے زیادہ کچھ کرنا ہوگا۔

تازہ ترین