• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ جتی‘‘ سندھ کی روایتی جوتی، جو گزشتہ ایک صدی سے مقبول ہے

یوں تو آپ نے مختلف اقسام کے دلکش اور خوبصورت جوتے، جوتیاں ، سینڈل سنے، دیکھے اور پہنے ہوں گے، پاکستان کے مختلف شہروں میں جوتوں کی بڑی فیکٹریوں کے ساتھ ساتھ متعدد شہر ایسے ہیں جہاں مقامی سطح پرجوتی، چپل، کھسے تیار کئے جاتے ہیں ، اگر پشاور کا ذکر کیا جائے تو پشاوری جوتی ، کوئٹہ کی نوروزی ، ملتان کے کھسے ، میانوالی کی چپل سمیت بعض دیگر علاقوں میں تیار ہونے والی جوتیوں اور چپلوں کا اپنا ایک انداز ہے، عام طور پر لوگ جوتے، جوتی، چپل، سینڈل کا استعمال کرتے ہیں لیکن سندھ کے شہر خیرپور میرس میں گزشتہ سو سال سے زائد عرصے سے تیار ہونے والی ’’جتی‘‘بناوٹ، خوبصورتی اور قیمت کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ویسے تو یہاں سندھی کھسے بھی تیار کئے جاتے ہیں لیکن ’’سندھی جتی‘‘ میں سندھ کی ثقافت نمایاں نظر آتی ہے۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ خیرپور میرس میں تیار ہونے والی ’’جتی‘‘ کو اس لئے ’’جتی‘‘ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ہی وقت میں مرد اور عورت دونوں استعمال کرسکتے ہیں۔اس کی تیاری میں بہت زیادہ محنت درکار ہوتی ہے۔ گھروں سے لے کر دکانوں تک مراحل طے کرنے کے بعد یہ ’’جتی‘‘کی ایک جوڑی چار سے پانچ دن میں تیار ہوکر مارکیٹ میں فروخت کے لئے لائی جاتی ہے۔ 

خیرپور کا علاقہ جب آزاد اور خود مختارریاست کی حیثیت رکھتا تھا،تو اس وقت یہاں کے لوگ اپنی حیثیت کے مطابق ’’سندھی جتی‘‘ بنوایا کرتے تھے اور جتی بنانے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ میروں کے دور میں ’’سندھی جتی‘‘ میں سونے، چاندی کی تاریں اورہیرے جواہرات اور ریشمی دھاگہ کا استعمال کیا جاتا تھا جسے بعض اوقات بیرونی ممالک سے بھی منگوانا پڑتا تھا۔

یہ جتیاں اتنی زیادہ قیمتی ہوتی تھیں کہ امراء اور نوابین اپنی مالی حیثیت کے مطابق اسے تیار کراتے تھے۔گاری گروں کی جانب سے اس کی تیاری کے وقت قیمت کے مطابق خام کی کمی بیشی کردی جاتی تھی۔خیرپور ریاست میں جب میروں کے فیض محل میںدربار منعقد ہوتا تھا تو وہاں، وزراء امراء، مشیر، مصاحبین اپنے مراتب کے مطابق نشستوں پر متمکن ہوتے تھے۔ 

سامنے والی کرسیوںپر براجمان، امیر کے پائوں میں لازمی طور پر مہنگی اور نفیس جتی یا کھسہ ہوتا تھا، اور اس وقت خیرپور ریاست کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق جتی کی صنعت کا درجہ دوسرے نمبر پر تھا، جبکہ ریشمی کپڑے کی 22 فیکٹریاں ہونے کی وجہ سے کپڑے کی صنعت کا شمار درجہ اول میں ہوتا تھا۔چونکہ یہاں سلک بنا کرتی تھی اسی لئے عام طور پر اس کپڑے پر سندھی کھسہ یا جتی میں اسی رنگ کا دھاگہ استعمال کر کےمختلف ادوار کے فیشن کے مطابق خواتین وحضرات استعمال کرتے تھے ۔ 

میر صاحبان کی خواتین بھی عام طور پر باہر سے آئے ہوئے وفود ، جن میں خواتین ہوتی تھیں،تحفے میں اعلیٰ قسم کے کپڑے کے ساتھ خاص طور پر بنی ہوئی ’’سندھی جتیاں یا کھسے‘‘ بھی نذر کرتی تھیں۔ 

بعض دولت مند لوگ اپنے ذوق کی تسکین اور دوست احباب کو مرعوب کرنے کے لیے اپنی پسند کے مطابق ’’سندھی جتی‘‘تبار کراتے تھے۔ وہ جتیاں اتنی ہی زیادہ قیمتی ہوا کرتی تھیںجتنی شاہی خاندان یا امراء کی ہوتی تھیں کیونکہ ان جتیوں میں ہیرے ، جواہرات ، سونے چاندی کی تاریں اور قیمتی ریشمی دھاگہ استعمال کیا جاتا تھا۔

اس مہنگائی کے دور میں ’’سندھی جتی‘‘ میں سونے ،چاندی کی تاریں یا ہیروں کا استعمال تو نہیں کیا جاتا تاہم مختلف رنگوں کے خوبصورت دھاگوں، خالص چمڑے کا استعمال عام طور پرضرورہوتاہے اور یہاں سے خوبصورت، دلکش ، سندھی جتیاں نہ صرف پاکستان کے مختلف شہروں بلکہ بیرون ملک بھی لوگ اپنے عزیز، رشتے داروں، دوست احباب کو بھجواتے ہیںجب کہ بعض افراد سے ان کے رشتہ دار فرمائش کرکے یہ جتی منگوایا کرتے تھے۔ 

’’سندھی جتی‘‘ کی تیاری میں بہت زیادہ محنت کی جاتی ہے ، جتی تیار کرنے والے کاریگر ابتدائی مراحل میں جتی کے اوپر کا ڈیزائن تیار کر کے انہیں اس کام کے لیے مخصوص گھریلو دست کار خواتین گھروں میں بھجواتے ہیں ۔ دست کار خواتین جتی کے اوپری حصے پر انتہائی مہارت سے لال، پیلے، نیلے،ہرے،اور اورنج سمیت دیگر رنگوں کے دھاگوں سے ڈیزائن کے مطابق جتی کی کڑھائی کا کام کرتی ہیں، جس کے بعد جتی بنانے والے کاریگر جتی کو مکمل کرنے کے لئے چمڑے سے بنے ہوئے اوپری حصے کو چمڑے کے تلے کے ساتھ سلائی کر کے اس جتی کو حتمی شکل دیتے ہیں ۔ 

’’سندھی جتی‘‘ کی تیار ی میں بہت زیادہ محنت ہونے کے ساتھ اس کی قیمت بھی عام جوتیوں یا سینڈل کے مقابلے میں زیادہ ہے،عام طور پر دکانداروں کے پاس جو جتی فروخت کیلئے دستیاب ہوگی اس کی قیمت 2000روپے سے لے کر 8000روپے تک ہے جبکہ اسی طرح کے ڈیزائن میں مشین سے کڑھی ہوئی جتی ہاتھ سے بنائی گئی جتی کے مقابلے میں کم قیمت پر دستیاب ہوتی ہے ۔لیکن لوگ زیادہ تردست کاروں کی بنائی ہوئی جتی پہننا پسند کرتے ہیں۔ 

جتی کے ساتھ ساتھ خیرپور میرس میں منفرد انداز کے ’’سندھی کھسے ‘‘ بھی تیار کئے جاتے ہیں جو خوبصورت اور دلکش رنگوں کے دھاگوں کے ساتھ ہاتھ سے کڑھے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کھسوں کی قیمت بھی عام کھسوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔جتی سازی کی صنعت اب وہ درجہ نہیں رکھتی جو ماضی میں اسے حاصل تھا۔ اب خیرپور میرس میں اس کام کے صرف چند کاریگر باقی رہ گئے ہیں جو اب بھی اس پیشے سے وابستہ ہیں۔

وہ جتی بھی زیادہ تعداد میں نہیں تیار کرتے کیونکہ اس کی قیمت تین سے آٹھ ہزار ہونے کے باعث وہ اپنی ضرورت کے مطابق جتیاں تیارکرتے ہیں۔ ’’سندھی جتی‘‘ اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ اس کا وزن انتہائی کم ہوتا ہے اوراسے پہننے والا انتہائی سکون محسوس کرتا ہے۔خیرپور کے بعد اسی طرز کی ’’سندھی جتیاں‘‘ کندھ کوٹ اور ہالا میں بھی بننے لگی ہیں۔

تازہ ترین