اردو میں ایک ترکیب ’’غرضیکہ ‘‘ استعمال ہوتی ہے اور اس کا مطلب ہے: ’’مراد یہ کہ، مقصد یہ ہے کہ، قصہ مختصر ، حاصلِ گفتگو یہ کہ ‘‘۔
لیکن کچھ عرصے سے اردو میں یہ رجحان پیدا ہوا ہے کہ الفاظ کو ملا کر نہ لکھا جائے ۔ یہ رجحان بُرا نہیں ہے کیونکہ بعض الفاظ یا مرکبات کو غیر ضروری طور پرملا کر لکھنے سے بعض پڑھنے والوں کو ، خاص طور پر طالب علموں کو، بعض اوقات بہت دشوار ی ہوتی ہے ۔مثلاً اگر’’ گورَکھ پوری‘‘ کوملا کر یعنی’’ گورکھپوری‘‘ لکھا جائے تو طالب علم اس میں ’’گور ‘‘کو الگ اور ’’کھپوری ‘‘کو الگ پڑھتے ہیں۔
لفظوں کو توڑنے کے اسی رجحان کے تحت جب ’’غرضیکہ ‘‘ کو توڑ کر لکھا جانے لگا تو بھائی لوگوں نے اسے ’’غرض یہ کہ ‘‘ لکھنا شروع کیا اور لوگ اسی طرح پڑھنے بھی لگے۔’’ غرضیکہ ‘‘ کو ’’غرضے کہ ‘‘ تو لکھ سکتے ہیں لیکن اسے ’’غرض یہ کہ ‘‘سمجھ لینا اور اسی طرح بولنا کس طرح درست ہوسکتا ہے ؟ اگر ’’غرضیکہ ‘‘ کو توڑ کر لکھا جائے تو یہ’’غرضے کہ ‘‘بنے گا، نا کہ ’’ غرض یہ کہ‘‘ ؟
لیکن یہ غلط فہمی اتنی عام ہوگئی ہے کہ ایک صاحب نے ایک ماہ نامے میں ایک مضمون املا کی اصلاح کے موضوع پر لکھا ہے اور اس میں انھوں نے ’’غرضیکہ‘‘ کی بجاے ’’غرض یہ کہ ‘‘ کو درست املا قرار دیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ’’غرض یہ کہ ‘‘ کو ملا کر لکھا جائے تو اس کا املا ’’غرضیہکہ‘‘ ہوگا نہ کہ ’’غرضیکہ‘‘۔
یہ غلط فہمی فارسی سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ فارسی میں بعض اوقات کسی لفظ کے بعد ’’ے ‘‘ کا اضافہ کرتے ہیںاوراس سے ’’ایک ‘‘ یا ’’کوئی‘‘ کا مفہوم پیدا ہوتا ہے ، مثلاً شخصے یعنی ایک شخص یا کوئی شخص۔ہم اردو میں اکثر ’’بقولِ شخصے ‘‘کی ترکیب استعمال کرتے ہیں اور بقول ِ شخصے (یعنی کسی شخص کے بقول)میں یہی ’’ے ‘‘ ہے جس کا لفظ ’’شخص ‘‘ کے بعد اضافہ کیا گیا ہے۔اسی طرح فارسی ترکیب ’’بقول ِ کسے ‘‘بھی اردو میں مستعمل ہے ،یعنی کسی کے قول میں، کسی شخص کے بقول۔یہاں فارسی کے لفظ ’’کَس ‘‘(کاف پر زبر) کے بعد ’’ے ‘‘ کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کوئی شخص، کوئی آدمی ، ایک شخص۔
فارسی میں کہاوت ہے : وزیرے چُنیں شہریارے چُناں ، یعنی کوئی وزیر جیسا ہوتا ہے ویسا ہی شہر یار (یعنی بادشاہ یا حاکم ِ شہر)ہوتا ہے (یعنی اس کے وزیر اور مشیر ہی اس کی لُٹیا ڈبوتے ہیں )۔یہاں وزیر اور شہریار میں بھی اسی’’ے ‘‘کا اضافہ کیا گیا ہے جس سے ’’کوئی ‘‘کا یا ’’ایک ‘‘ کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ گویا ’’وزیرے ‘‘ کا مطلب ہوا کوئی وزیر یا ایک وزیر۔ فارسی کی ایک اور کہاوت اردو میں رائج ہے اور وہ ہے : ہر کارے و ہر مَردے ۔ یعنی ہر کام کے لیے کوئی (خاص) آدمی ہوتاہے ، یہاں بھی کار (یعنی کام ) اور مرد میں ‘‘ے ‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس سے ’’ایک ‘‘یا ’’کوئی ‘‘کا مفہوم پید اہورہا ہے۔
جس ’’ے ‘‘ سے ’’ کوئی‘‘ یا ’’ایک ‘‘کا مفہوم پیدا ہو اُسے ’’ یاے تنکیر ‘‘ اور ’’ یاے وحدت ‘‘ کہتے ہیں (یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ چونکہ جدید فارسی میں یاے مجہول (بڑی ’’ے‘‘) نہیں ہے لہٰذا اب ایسے موقعوں پر فارسی میں یاے معروف( چھوٹی’’ ی‘‘) استعمال کی جاتی ہے)۔
اردو میں بھی اس ’’ے‘‘ کا استعمال ہوتا ہے اور اس کی ایک مثال’’ غرضے ‘‘ ہے جس میں’’غرض‘‘ کے بعد ’’ے ‘‘کا اضافہ کیا گیا ہے۔یہ یاے تنکیر اوریاے وحدت ہی ہے جس نے ’’غرض‘‘ کو’’ غرضے‘‘ بنادیا ہے۔ ’اس کا مطلب ہوگا کوئی غرض ، کوئی مقصد، ایک مقصد ۔لیکن ’’غرضے کہ ‘‘ کویاروں نے ملا کر یعنی’’ غرضیکہ‘‘ لکھنا شروع کیا اورجب اسے توڑنے پر آئے تو’’ غرض یہ کہ‘‘ بنادیا۔ صحیح املا ہے : غرضے کہ ۔ اس کی بجاے ’’غرض کہ‘‘ یا ’’غرض یہ کہ‘‘بھی لکھ یا بول سکتے ہیں۔ لیکن ’’غرض یہ کہ‘‘اگر استعمال کیا بھی جائے تو یہ ذہن میں رہے کہ یہ ’’غرضے کہ ؍غرضیکہ ‘‘ سے الگ ایک استعمال ہے اور ’’غرض یہ کہ ‘‘ کو ’’غرضیکہ ؍غرضے کہ‘‘ کا متبادل املا نہیں سمجھنا چاہیے۔
کچھ لوگ یوں بھی لکھتے ہیں کہ ’’غرض یہ ہے کہ ‘‘ ، اور یہ غلط نہیں ہے مگرذہن میں ر ہے کہ ’’غرضیکہ ‘‘ یا’’ غرضے کہ ‘‘ فارسی کے انداز پر بنائی گئی ترکیب ہے جب کہ ’’یہ ‘‘ تو اردو کا لفظ ہے ،اور اردو کا ’’ یہ‘‘ بھلا فارسی کے یاے وحدت اور یاے تنکیر کے ساتھ کیسے آسکتا ہے؟