اِس ہفتے پاکستان امریکہ اور عالمی معاشیات و سیاست کے بارے میں جو کچھ پڑھنے کو ملا اس سے بابا فرید کا دوہا ذہن میں گونجنے لگا:
میں جانیا دکھ مجھی کو دکھ سبھائے جگ
اپر چڑھ کے ویکھیا، گھر گھر ایہو اگ
(میں سمجھا تھا کہ صرف میں ہی دکھی ہوں لیکن جب اوپر سے دیکھا تو پتہ چلا کہ ہر گھر میں ایک ہی جیسی آگ لگی ہو ئی ہے)
ہم عرصہ دراز سے یہ واویلا کر رہے تھے کہ پاکستان میں سارا ٹیکس غریب عوام سے ہی وصول کیاجاتا ہے لیکن کچھ دیر پہلے معاشیات پر چھپنے والی ایک کتاب ’’ناانصافی کی فتح‘‘ (Triumph of Injustice)میں اعداد و شمار کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے کہ امریکہ کی ایک صدی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کارکن عوام سرمایہ کاروں اور کاروباری طبقہ سے زیادہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ چالیس سال پہلے رونلڈ ریگن کے دورمیں شروع ہونے والے رجحان کے نتیجے میں اب امریکی عوام سرمایہ داروں سے کہیں زیادہ ٹیکس دے رہے ہیں۔ گیبریل زوکمین اور ایمنویل سائز نے اپنی ٹھوس تحقیق سے یہ ثابت کردیا ہے کہ پچھلے چالیس سالوں میں امریکہ کے امیر طبقے نے سیاسی تبدیلیوں کے ذریعے اپنے اوپر لگے ٹیکسوں کی شرح میں مسلسل کمی لا کر سارا بوجھ عوام پر لاد دیا ہے اور اسی لئے ان کی دولت کئی گنا بڑھ گئی ہے: اسی دوران عوام کی آمدنیوں میں جمود ہی نہیں آیا بلکہ ان کی حالت دگرگوں ہو رہی ہے۔
یہ بات تو خیر کوئی نئی نہیں ہے کہ حکمران اور سرمایہ دار عوام کی محنت پر ہی پلتے اور آسودہ زندگی گزارتے ہیں: قبل مسیح کے دور میں بھی سارا کچھ کسان اور نچلے طبقے کے ہنر مند ہی پیدا کرتے تھے اور ان کے بھائی بند ذہنی محنت کے ذریعے نئے راستے (سائنس) تلاش کرتے تھے۔ اوپر بیٹھے برہمن اور کھشتری نظریاتی لبادے اوڑھ کر یا بزور شمشیر اصل پیدا کاروں کا خون نچوڑتے تھے۔ ہزاروں سال بعد ہماری نسل کو بیسویں صدی میں یہی نظام ملا تھا جسے ہمارے کالج کے زمانے میں فیض احمد فیض سے زیادہ پڑھے جانے والے انقلابی رومانی شاعر ساحر لدھیانوی نے کچھ اس طرح سے بیان کیا تھا:
ملیں اسی لئے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دختران وطن تار تار کو ترسیں
ان سے پہلے کے بڑے اردو شاعر علامہ محمد اقبال کے اس مصرع کو کہ ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ کو تو مذہب پرستوں نے خوب استعمال کیا لیکن انہی کےیہ آفاقی مصرعے فراموش کر دیے گئے:
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
٭٭٭
جو نقش کہن تم کو نظرآئے مٹا دو
ہمیں علامہ اقبال کے بظاہر تضادات کو نظر انداز کرتے ہوئے ’نقش کہن‘ مٹانے والی حقیقت کو سامنے رکھنا ہے کیونکہ اسی فرائض منصبی کے لئے دنیا میں پیمبروں، صوفیا اور فلسفیوں کا ورود ہوا۔ ان کی تمام کوششوں کے باوجود ’’فاصلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا‘‘ اور نامنصفانہ نظام بھیس بدل بدل کر عوام کی ہڈیاں تک چبانے کے لئے روز بروز طاقتور ہوتا گیا اور بھولے بھالے عوام ان کی چال میں آکر اپنے ہی مفاد کے قاتل بن جاتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ امریکہ کی گھنائونی شکل اختیار کرتا ہوا سرمایہ داری نظام غریب ترین ریاستوں کے غریب ترین سفید فام لوگوں کے ووٹوں سے پھل پھول رہا ہے۔ پاکستان میں سادہ دل عوام ’سیاسی بدعنوانیوں‘ کی سرخ بتی کے پیچھے بھاگنا شروع ہو جاتے ہیں اور امریکہ میں سارا ملبہ رنگ دار لوگوں اور تارکین وطن پر ڈال دیا جاتا ہے۔
امریکہ کے روشن خیال لوگ بھی اس مغالطے کا شکار ہیں کہ عوام کی مالی مشکلات کا سبب خود کار مشینیں اور روبوٹ ہیں جو انسان کی جگہ لے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں مشہور معیشت دان اور نیویارک ٹائمز کے کالم نویس پال کروگمین نے درست نشاندہی کی ہے کہ مشینیں اور چین امریکی عوام کا کچھ نہیں بگاڑ رہے بلکہ یہ ریاست کی سیاسی پالیسیاں ہیں جو امیروں کا ٹیکس بہت نیچے لا کر اور غریبوں پر بوجھ لاد کر اس طرح کی صورت حال کی ذمہ دار ہیں۔ یورپی ممالک میںجہاں اس طرح کی پالیسیاں اختیار نہیں کی گئیں وہاں صورت حال اتنی نا گفتہ بہ نہیں ہے۔ اس لئے عوام کو مشینوں اور چین کو موردالزام ٹھہرانے کی بجائے حکمران طبقوں کی پالیسیوں کے خلاف جنگ آزما ہونا چاہئے۔ پاکستان میں تو سرمایہ دار اور جاگیردار خود کچھ بھی نہیں کرتے اور صرف ریاست کے اداروں کے ناجائز استعمال کے ذریعے دولت بٹورتے ہیں۔ پاکستان میں تو ریاست نے ہی عوام کے پیسے سے پی آئی ڈی سی کے ذریعے ملیں تعمیر کر کے سرمایہ دار پیدا کئے تھے۔ پاکستان کے سرمایہ دار تو آج تک ریاستی سبسڈیوں اور ٹیکسوں کی چھوٹ کے ذریعے اپنا کام چلاتے ہیں۔ خیر پاکستانی ریاست نے تو ان سے بھی بدتر طفیلی اور مفت خوروں کا بہت بڑا امیر طبقہ پیدا کردیا ہے جو بنا کچھ کئے ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی گزار رہا ہے۔ پاکستانی عوام کو تمام سرخ بتیوں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے بنیادی نظام اور سیاسی تبدیلیوں کو بدلنے کی جنگ کیلئے تیار ہونا چاہئے۔ پہلے تو ’نقش کہن‘ کی نشاندہی کریں اور پھر اسے مٹانے کا سفر شروع کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ نقش زیادہ گہرے ہو کر سب کا خاتمہ کر دیں۔