کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں کوئی ادارہ بیچ میں نہیں ہے، حکومت اور اپوزیشن براہ راست مذاکرات کررہی ہیں وزیراعظم کا استعفیٰ اور نئے انتخابات کا انعقاد ہمارا اصولی موقف ہے، اپوزیشن نے لچک دکھادی ہے حکومت بھی ہماری بات مان لے سینئر تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ مذاکرات کے نتیجے میں مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کے ملتوی ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے،سابق اسپیشل پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق نے کہا کہ نواز شریف پہلے ہی جیل میں تھے جہاں نیب نے ان سے دو تین بار تفتیش بھی کی، نواز شریف نے نیب سے تعاون کیا اور سوالوں کے جوابات بھی دیئے ، اس صورتحال میں نواز شریف کو گرفتار کر کے نیب کی کسٹڈی میں لانا عجیب کام لگتا ہے، میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ ساہیوال کے ملزمان کی بریت کے عدالتی فیصلے پر لوگوں کا شدید ردعمل آرہا ہے، عوام میں پائے جانے والے غم و غصہ کے بعد وزیراعظم نے تیسری مرتبہ اس کیس کے حوالے سے ایک وعدہ کیا ہے۔ ن لیگ کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ آزادی مارچ طے شدہ پروگرام کے مطابق ہوگا، حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے اپوزیشن کے احتجاج کے حق کو تسلیم کر کے مذاکرات کی شرط پوری کی ہے، اس وقت آزادی مارچ کی جگہ پر بات چیت چل رہی ہے، حکومت کا اصرار ہے کہ مارچ پریڈ گراؤنڈ میں کیا جائے جبکہ اپوزیشن ڈی چوک پر احتجاج کرنا چاہتی ہے، حکومت نے ڈی چوک کے حوالے سے عملی دشواریوں کا ذکر کیا تو اپوزیشن نے انہیں دو متبادل جگہیں تجویز کی ہیں جن سے ریڈ زون کا بھی احترام ہوگا، اپوزیشن نے لچک دکھادی ہے حکومت بھی ہماری بات مان لے تو یہ ایونٹ پرامن طریقے سے ہوسکتا ہے۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا استعفیٰ اور نئے انتخابات کا انعقاد ہمارا اصولی موقف ہے، حکومت کی معاشی و خارجہ پالیسیوں کی ناکامی سے کشمیر کا مسئلہ بھی متاثر ہورہا ہے، یہ حکومت جتنی دیر رہے گی ملک مزید دلدل میں دھنستا جائے گا، پاکستان کو اس مشکل سے نکالنے کیلئے آئینی راستہ عوام کی طرف دوبارہ رجوع کرنا ہی ہے، ملک میں سلیکٹڈ کے بجائے الیکٹڈ حکومت آنی چاہئے جو ملکی مسائل حل کرے۔ احسن اقبال نے کہا کہ آزادی مارچ بنیادی طور پر جے یو آئی ایف کی قیادت کا اقدام ہے، جے یو آئی ایف نے ابھی صرف آزادی مارچ کا اعلان کیا ہے ،آئندہ کا لائحہ عمل دیگر جماعتوں سے مشاورت کے بعد طے ہوگا، اکتیس اکتوبر کے جلسہ میں اپوزیشن کے مطالبات پیش کیے جائیں گے، اسپیکر اگر پروڈکشن آرڈرز جاری کررہے ہوتے تو آج انہیں اخلاقی برتری ہوتی، اسپیکر اس صورت میں آج بہت ساری چیزوں میں حکومت کی مدد کرسکتے تھے۔احسن اقبال کا کہنا تھا کہ حکومت کے ساتھ اعتماد کی کمی ہے ، حکومت ہمیں یقین دلائے کہ جن باتوں پر اتفاق ہوگا انہیں پورا کیا جائے گا، حکومت کے ساتھ مذاکرات میں کوئی ادارہ بیچ میں نہیں ہے، حکومت اور اپوزیشن براہ راست مذاکرات کررہی ہیں۔ سینئر تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن قیادت سے مشاورت کے بعد حکومت سے مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے، فضل الرحمٰن کے جو معاملات ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ طے ہوگئے ہیں ان میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہے، مذاکرات کے نتیجے میں مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کے ملتوی ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے،آزادی مارچ 27اکتوبر کو ہی شروع ہوگا اور 31اکتوبر کو اسلام آباد میں جلسہ ہوگا، حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات آزادی مارچ کے التواء کیلئے نہیں ہورہے ہیں، اپوزیشن حکومت سے کہہ رہی ہے آپ ہمیں سہولت دیں تو آئندہ بھی بات چیت کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ فضل الرحمٰن ایک دفعہ اسلام آباد آجائیں گے تو ن لیگ کے کارکن اور رہنما مولانا کو مجبور کریں گے آپ نے واپس نہیں جانا ہے، مولانا فضل الرحمٰن سمجھتے ہیں کہ اس وقت حکومت سے مذاکرات کرنا ہوں گے اس لئے انہوں نے ابتداء کردی ہے، فضل الرحمٰن کے مارچ سے متعلق عمران خان ہی نہیں شیخ رشید بھی مطمئن تھے، عمران خان کے کچھ ساتھی بیک چینل سے بھی اپوزیشن سے رابطے قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی، مولانا فضل الرحمٰن، شہباز شریف اور بلاول نے جو کرنا ہے وہ ہو کر رہے گا۔سابق اسپیشل پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق نے کہا کہ چیئرمین نیب کے پاس کسی کو انویسٹی گیشن یا انکوائری کے مرحلہ پر گرفتار کرنے کا اختیار ہے، نیب نے اس اختیار کو مختلف ادوار میں مختلف انداز میں استعمال کیا ہے، ایک دور میں نیب انویسٹی گیشن اور انکوائری کے مرحلہ پر لوگوں کو گرفتار نہیں کرتا تھا، پاناما کیس میں بھی نواز شریف اور مریم نواز کو گرفتار نہیں کیا گیا تھا، بابر اعوان ، یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف کو بھی اس مرحلہ پر حراست میں نہیں لیا گیا ، نیب اگر سمجھتا ہے کہ کسی ملزم پر سنگین الزامات ہیں تو انہیں گرفتار بھی کرلیتا ہے۔ عمران شفیق کا کہنا تھا کہ نواز شریف پہلے ہی جیل میں تھے جہاں نیب نے ان سے دو تین بار تفتیش بھی کی، نواز شریف نے نیب سے تعاون کیا اور سوالوں کے جوابات بھی دیئے ، اس صورتحال میں نواز شریف کو گرفتار کر کے نیب کی کسٹڈی میں لانا عجیب کام لگتا ہے۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ ساہیوال کے ملزمان کی بریت کے عدالتی فیصلے پر لوگوں کا شدید ردعمل آرہا ہے، عوام میں پائے جانے والے غم و غصہ کے بعد وزیراعظم نے تیسری مرتبہ اس کیس کے حوالے سے ایک وعدہ کیا ہے، لوگ سوال کررہے ہیں کہ جو کچھ ان کی آنکھوں نے دیکھا وہ سب کیسے بھلادیں، سی ٹی ڈی اہلکاروں نے جس طرح ایک نہتے خاندان پر گولیاں برسائیں اس خاندان پر ہی الزام لگادیا کہ وہاں سے گولیاں برسائی گئی تھیں، بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ اور بہن دم تو ڑگئے۔