رانا اعجاز حسین چوہان
بہت سے شوق، مشاغل دوسروں کی نقل یا فیشن کے طور پر اپنائے جاتے ہیں، لیکن آگے چل کر یہ ایسی عادت یا مجبوری بن جاتے ہیں، جنہیں کوشش کے باوجود ترک کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ان میں سے ایک عادت منشّیات کا استعمال بھی ہے، جو نہ صرف نشے کے عادی فرد بلکہ اُس کے گھرانے، معاشرے اور قوم کو بھی تباہ و برباد کر دیتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ منشّیات کو لعنت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ منشّیات کے استعمال کی پہلی سیڑھی چھالیا، پان ، سگریٹ ہے ، جب کہ نشے کے عادی افراد منشّیات فروشوں کے آلۂ کار بن کر دوسروں کو مفت نشے کی لت لگانے کے بعد انہیں منشّیات خریدنے پر بھی مجبور کر دیتے ہیں۔
منشّیات کا استعمال اس قدر قبیح فعل ہے کہ یہ فرد کو ہر جائز و ناجائز کام حتیٰ کہ کسی بے گناہ انسان کا قتل تک کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نصف سے زاید جرائم کے واقعات میں نشے کے عادی افراد ملوّث ہوتے ہیں اور بیش تر ٹریفک حادثات بھی عموماً منشّیات کے استعمال ہی کے باعث پیش آتے ہیں۔
اقوامِ متّحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس وقت دُنیا بَھر میں 15سے 64برس کی عُمر کے تقریباً 35کروڑ افراد منشّیات کے عادی ہیں، جب کہ پاکستان میں 76لاکھ سے زاید افراد نشے کی لَت میں مبتلا ہیں، جن میں 78فی صد مَرد اور22 فی صد خواتین شامل ہیں۔ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ منشّیات کے عادی 55فی صد افراد کا تعلق پنجاب اور 45فی صد کا مُلک کے دیگر صوبوں سے ہے۔ نیز، نشے کے عادی افراد کی تعداد میں سالانہ 5لاکھ نفوس کا اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان میں اونچے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نشے کے لیے آئس کرسٹل، حشیش اور ہیروئن کے علاوہ مختلف نشہ آور ادویہ کا استعمال کرتے ہیں، جب کہ نشے کی لَت میں مبتلا متوسّط اور نچلے طبقے کے افراد نشہ آور ادویہ، سَستی شراب، چرس، سگریٹ، پان، گٹکے اور نسوار وغیرہ کا سہارا لیتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 70ہزار سے زاید افراد لقمۂ اجل بنے ہیں، جب کہ مُلک میں ہر سال اس سے تین گُنا سے زاید ہلاکتیں منشّیات کے استعمال کے سبب ہو جاتی ہیں۔
منشّیات کا زہر ہمارے مستقبل کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے کہ 13سے 25برس کی عُمر کے لڑکے، لڑکیاں اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں سرکاری سطح پر منشّیات کے عادی افراد کے علاج کے لیے خصوصی اسپتال نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر اِکّا دُکّا موجود بھی ہیں، تو ان میں علاج معالجے کی سہولتیں ناکافی ہیں، جب کہ نجی اسپتالوں میں منشّیات کی لت سے نجات پر اُٹھنے والے اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ ایک عام آدمی وہاں علاج کروانے کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا۔
پاکستان میں بچّے نشے کو بہ طور فیشن بھی اپنالیتےہیں، جب کہ بالغ اور پُختہ عُمر افراد پریشانیوں، تکالیف سے عارضی طور پر راہِ فرار اختیار کرنے کے لیے منشّیات کا سہارا لیتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں چھالیا، نسوار، پان اور گٹکے جیسی اشیاء کو منشّیات سمجھا ہی نہیں جاتا، جب کہ در حقیقت انہی چیزوں سے چرس اور ہیروئن سمیت دوسرے خطرناک نشوں کی ترغیب ملتی ہے۔
نشہ آور اشیاء کی فہرست میں اب’’ آئس‘‘ نامی ایک منہگے نشے کا بھی اضافہ ہو گیا ہے، جو نوجوان نسل کے لیے زہرِ قاتل سے کم نہیں۔ نوجوانوں میں سب سے مقبول مذکورہ نشہ اس قدر زود اثر ہے کہ اس کی ایک ہی ڈوز فرد کو اس کا عادی بنا دیتی ہے۔ چینی کے شفّاف دانوں سے مماثلت رکھتے اس نشے کو ’’گلاس‘‘ یا ’’کرسٹل‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نزلہ و زکام کی زاید المیعاد ادویہ سے ایفی ڈرین اور ڈیکسٹرو میتھارفن کشید کر کے تیار کیا جاتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق، آئس کے استعمال سے صحت پر انتہائی تباہ کن اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔
یہ حافظے کی کم زوری اور دیگر اعصابی امراض کا سبب بننے کے ساتھ گردوں اور جگر کے لیے بھی انتہائی مُہلک ہے۔ اس وقت تعلیمی اداروں میں آئس کا استعمال تیزی سے فروغ پا رہا ہے اور اسکولز، کالجز اور جامعات کے طلباو طالبات اس لَت کا شکار ہو کر ذہنی و جسمانی معذوری کے علاوہ حلق، جگر، گردوں، قلب اور معدے کے مختلف عوارض سمیت فالج، ٹی بی، بواسیر اور دائمی قبض جیسی مُہلک بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
منشّیات کی عادی لڑکیوں، بالخصوص طالبات میں سگریٹ کے علاوہ ایک نشہ آور چیونگم بھی خاصی مقبول ہے۔ تھائی لینڈ اور یورپ سے درآمد شُدہ یہ فلیتو نامی چیونگم پاکستان میں 500سے 1200روپے میں فروخت کی جاتی ہے۔
منشّیات کے بڑھتے استعمال کے تدارک اور مختلف نشہ آور اشیاء کی خرید و فروخت روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات کی اشد ضرورت ہے، تاکہ قوم کا مستقبل محفوظ ہو۔ تاہم، افسوس کا مقام یہ ہے کہ معاشرتی اصلاح کی عَلم بردار سماجی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے منشّیات سے پاک معاشرہ تشکیل دینے کی سمت کوئی ٹھوس، مؤثر قدم نہیں اُٹھایا جا رہا۔
پاکستان میں انسدادِ منشّیات کے قوانین پر عمل درآمد کے لیے اینٹی نارکوٹکس فورس، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، پولیس، ایف آئی اے، کسٹم، فرنٹیئر کانسٹیبلری اور ایئر پورٹ سیکوریٹی فورس سمیت قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے موجود ہیں، لیکن ان کے مابین رابطوں کے فقدان کی وجہ سے منشّیات کی روک تھام کے حوالے سے اب تک کوئی واضح کام یابی نہیں مل پائی۔
معاشرے سے منشّیات کی لعنت ختم کرنے کے لیے حکومت کو اینٹی نارکوٹکس فورس کو مزید فعال اور اس گھناؤنے کاروبار میں ملوّث ضمیر فروش افراد کے خلاف سخت کارروائی کر کے انہیں نشانِ عبرت بنانا ہو گا۔نیز، حکومت کے ساتھ والدین اور اساتذہ کی بھی یہ ذمّے داری ہے کہ وہ بچّوں کی سرگرمیوں اور مشاغل پر کڑی نظر رکھیں، جب کہ سماجی و رفاہی تنظیموں، سیاسی جماعتوں، ذرایع ابلاغ سے وابستہ افراد، ڈاکٹرز اور شعبۂ طب سے وابستہ افراد کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ معاشرے سے منشّیات کی لعنت کے
خاتمے کے لیے اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے جدوجہد کریں۔ علاوہ ازیں، ہماری نوجوان نسل کو صحت بخش سرگرمیوں کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے انہیں کھیل کے میدانوں سمیت دیگر بنیادی سہولتیں فراہم کرنی چاہئیں، تاکہ وہ اپنی توانائیاں مثبت سرگرمیوں پر صَرف کر سکیں۔
اسی طرح نوجوان نسل میں اس بات کا شعور اجاگر کیا جائے کہ وہ مذاقاً بھی نشہ آور اشیاء استعمال نہ کریں اور نہ ہی کسی نشے کے عادی یا فروخت کرنے والے فرد سے دوستی رکھیں، کیوں کہ بعض اوقات مذاقاً کی گئی ایک چھوٹی سی غلطی کی بھی بہت بھاری قیمت چکانی پڑ جاتی ہے، جو تباہی و بربادی پر بھی منتج ہوسکتی ہے۔