پشاور(نمائندہ جنگ) پشاورہائی کورٹ نے آزادی مارچ کے دوران جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانافضل الرحمان کی تقاریر اور پریس کانفرنس نشرنہ کرنے کے اقدام کو غیرآئینی وغیرقانونی قرار دیتے ہوئے پیمرا کی جانب سے کسی بھی زبانی حکمنامہ کو کالعدم قراردیتے ہوئے کہا کہ پیمرا واقعی اس طرح کی کوئی پابندی لگائے تو اسکے اپنے قوانین موجود ہیں جس میں وجوہات دینی پڑیں گی کہ کیوں پابندی لگائی جارہی ہے۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقاراحمد سیٹھ کیجانب سے جاری کردہ تفصیلی فیصلے میں اس قسم کا اقدام غیرقانونی قراردیتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن کو ٹی وی چینلز پر یکساں وقت دینے کا حکم دیا ہے۔
پانچ صفحات پر مشتمل فیصلے میں آئین کی مختلف شقوں کو زیرغورلایاگیا ہے اور سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالے دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کیس میں سپریم کورٹ پہلے ہی یہ تمام پیرامیٹرز طے کرچکی ہے کہ کب لوگوں کے خلاف پیمرا اقدام اٹھاسکتی ہے۔ چونکہ مذکورہ کیس میں ایسی کوئی بات ثابت نہیں جو پیمرا آرڈیننس کے خلاف ہو لہذاجے یو آئی کے جلوس اور تقاریر پر پابندی غیرآئینی ہے۔
اس حوالے سے اگر پیمرا دوبارہ ایسے زبانی احکامات جاری کرے تو درخواست گزار توہین عدالت کی درخواست دائر کرسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ عبیداللّہ ایڈوکیٹ نے رٹ میں موقف اختیار کیا تھا کہ پیمرا زبانی احکامات کے ذریعے ٹی وی چینلز کو پابندکیاہے کہ مولانا فضل الرحمان کے احتجاجی مارچ کو نشر نہ کیاجائے جس پر دورکنی بینچ نے اس قسم کا اقدام غیرقانونی قراردیتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن کو ٹی وی چینلز پر یکساں وقت دینے کا حکم دیا ہے۔
فیصلے میں قراردیا گیا کہ پیمرا کے سیکشن 27 میں واضح ہے کہ اگر کوئی نظریہ پاکستان کیخلا ف نفرت آمیز تقاریر، لوگوں میں اشتعال اور قومی سلامتی متعلق حالات خراب کرنے کی کوشش کریگا تو اسی صورت میں پیمرا ایسے افراد کی تقاریر و دیگر تقریبات پر پابندی لگا سکتا ہے تاہم اس کیس میں یہ کہی بھی نہیں لکھا گیا کہ مولانا فضل الرحمان نے ان تمام شقوں میں سے کسی ایک کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔