نیاگرا فال دنیا کی خوبصورت ترین آبشاروں میں سے ہے۔اُس کےساتھ ایک چھوٹا سا قصبہ بھی ہے۔جہاں پچاس ہزار کے قریب لوگ رہتے ہیں۔ جن میں زیادہ تر سیاحوں کےلئے ’’خدمت گزاری‘‘ کا کام کرتے ہیں۔یہ شہر امریکہ اور کینیڈا کی سرحد پر واقع ہے۔
پاکستان کی ایک اہم شخصیت امریکہ کے سرحدی شہر بفلو سے نکلی اور نیاگرا آبشار پر واقع رین بو برج پر پہنچی تو حیرت سے آسمان کو دیکھنے لگی۔ رنگ و نور کی پھواروں سے بھیگے ہوئے منظرآنکھوں سے چپک چپک جانے لگے۔ ایک تو یہ پل قوس ِقزح کی طرح نیم دائرےمیں ہے۔اوپر سےآبشار کی سمت آسمان پر اکثر قوس ِقزح کی محرابیں ہی محرابیں دکھائی دیتی ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری کینیڈا کے شہر ٹورنٹو کے علاقے مسی ساگا سے نکلے۔وساگا جھیل کے نیلگوں ساحلوں سے گزرتے ہوئے نیاگرا پارک کی اُس دومنزلہ عمارت تک پہنچے جہاں یادگاری تحائف کی دکانیں اور ریستوران ہیں ۔ایک ریستوران پر دونوں شخصیات کی ملاقات ہوئی۔
جہاں ڈاکٹر طاہر القادری کو یقین دلایا گیاکہ پاکستان آپ کے انتظار میں ہے۔اُس کی بقا کےلئےنون لیگ کی حکومت سے نجات ضروری ہوچکی ہے اور یہ تاریخ ساز کام سر انجام دینا آپ کی قسمت میں لکھا گیا ہے۔
اس کام میں عمران خان بھی آپ کا ساتھ دیں گے ۔آپ فوراً اسلام آباد آئیں اور قوم کی رہنمائی کریں۔ بس چند دن کا ایک دھرنا حکومت کی کرچیاں بکھیر دے گا۔ پھر ناصرف سانحہ ِ ماڈل ٹائون کے مجرم اپنے انجام کو پہنچیں گے بلکہ آپ کو بھی وہ مقام ملے گاجس کے آپ حقدار ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے اُس شخصیت پراعتبار کیا اور پھر وہ تاریخی دھرنا وجود میں آیا جس میں عمران خان تو ایک سو چھبیس دن ڈی چوک پر بیٹھے رہے مگر ڈاکٹر طاہر القادری پہلے اٹھ کر آ گئے انہیں جلداندازہ ہو گیا کہ حالات تبدیلی کےلئے سازگار نہیں۔
مستقبل کی جو تصویر انہیں دکھائی گئی تھی وہ درست نہیں تھی۔ہوا یہ تھا کہ اُس شخصیت نے کسی کو بھی اعتماد میں لئے بغیرشوشہ چھوڑا اب بھی یہ شوشہ ہی نہ ہو۔ مجھے اِس وقت بھی معاملہ ویسا ہی لگ رہاہے ۔ وہ لوگ جنہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کو آزادی مارچ کےلئے تھپکی دی۔وہ بے شک عمران خان کے حق میں نہیں ہیں۔کئی معاملات پر ان پر دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں مگر شواہد بتاتے ہیں کہ ان لوگوں نے بھی اپنے باس کو آن بورڈ نہیں لیا ہوا۔
سواِس دھرنے کا بھی وہی انجام ہوگا جو اُس دھرنے کا ہوا تھا بلکہ اُس سے بھی برا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ،مولانا فضل الرحمٰن نے دھرنے کی بھرپور تیاری کی ،ڈاکٹر طاہر القادری کے پہلے اور دوسرے دھرنے پرباریک بینی سےغور کیا۔
مولانا خادم حسین رضوی کے دھرنے کی ناکامیوں پر بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ڈسکشن کی۔ ماضی کے دھرنوں کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیاکہ جو کچھ کرنا ہے چند دن میں کرنا ہے۔ دھرنے کو طویل نہیں ہونے دینا۔
موسمی حالات بھی دھرنے کی طوالت کا ساتھ نہیں دے رہے۔اسلام آباد میں آج رات کودرجہ حرارت بارہ ہوگا۔ کل رات گیارہ اور پرسوں رات کو شاید نو یعنی جیسے جیسے وقت گزرے گا ،سردی بڑھےگی ۔یخ بستہ ہوائیں چلنا شروع ہوجائیں گی۔
یہ ممکن نہیں رہے گا کہ رات کھلےآسمان تلےبسر کی جاسکے۔ مولانا کے پاس پانچ نومبر تک وقت ہے ۔ موسمی پیش گوئی کے مطابق چھ اور سات تاریخ کو اسلام آباد میں تیز بارش اور طوفان کا امکان ہے۔ یعنی یہ دھرنا دوچار روزسے آگے نہیں بڑھ سکتا۔
مگرمولانا کو اس سے بھی بڑا خطرہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے لاحق ہے۔یہ دونوں پارٹیاں مولانا کی غیر قانونی سرگرمیوں کا حصہ بننے کےلئے تیار نہیں ۔وہ حکومت کے ساتھ کئے گئے معاہدے پر عمل در آمد چاہتی ہیں۔پشاور موڑ سے آگے بڑھنے کی صورت میں مولانا کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کر سکتی ہیں۔ ویسے تو اِس وقت تک آزادی مارچ کے جلوس نے پوری کوشش کی کہ وہ عوام کےلئے کسی مشکل کا سبب نہ بنے۔
کوئی ایمبولینس آئی توفوری طور پر اُس کےلئے راستہ بنایا گیا ۔ کوشش کی گئی ہے کہ ٹریفک کی آمد و رفت میں کوئی رکاوٹ نہ آئےلیکن دو دن کے بعد جب ’’ لشکر ِفضل رحمانی‘‘ ریڈ زون پر حملہ آور ہوگا توپھر کیا ہوگا۔ پھر قانون کی پاسداری کہاں جائے گی۔
یقیناً ان کےلئے کنٹینروں کے مورچوں میں موجودپولیس اور رینجرزخطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ اللّہ نہ کرے کہ ایک شخص کی زندگی کو بھی کچھ ہو۔ ماڈل ٹائون کےچودہ شہید اوربانوے افراد کو لگی ہوئی گولیاں ابھی تک ہمیں بھولی نہیں۔ بے شک دھرنےمیں شامل زیادہ تر لوگ مولانا کے نظریاتی کارکن ہیں ۔مدارس کے طالب علم ہیں۔
وہ زبان سے کہیں نہ کہیں مگر سوچتے ضرور ہیں کہ سکھر سے لے کر اسلام آباد کوئی بھی رات مولانا نےاُنکے ساتھ نہیں گزاری ۔ جیسے رات کے سائے گہرے ہونے لگتے ہیں۔
مولانا دھرنا چھوڑ کر کسی شاندار خواب گاہ تشریف لے جاتے ہیں۔ اس سے پہلے عمران خان ہوں یا ڈاکٹر طاہر القادری حتی کہ خادم حسین رضوی تک تمام لیڈران رات کارکنوں کیساتھ ہی گزارتے تھے۔
کنٹینروں میں کنٹینر کی روایت ڈاکٹر طاہر القادری نے ڈالی تھی۔ پہلی بارانہوں نے ہی ایسا کنٹینر تیار کرایا تھا جو اسٹیج بھی تھا اور اس میں رات بھی بسر کی جا سکتی تھی۔
بے شک مولانا کے ساتھ خاصے لوگ ہیں مگر ان لوگوں کو عوام نہیں کہا جا سکتا۔یہ نظریاتی اعتبار سے تیارشدہ افراد ہیں جو اس ملک میں ایک خاص قسم کی حکومت چاہتے ہیں۔ ویسے ہی جیسی انہوں نے ملا عمر کی زیرِ قیادت افغانستان میں قائم کی تھی۔
اقتدار کی یہ جنگ ریشمی رومال تحریک سے شروع ہوئی بلکہ اُس سے پہلے ۔اِن کا یہ دھرنابھی اقتدار کیلئے ایک اورحملہ ہے۔ اللّہ تعالیٰ پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔