• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی طرف سے اداروں اور حکومت خصوصاً وزیراعظم عمران خان کو دو دن کا الٹی میٹم دیا تھا۔ اِس وقت ملک میں سیاسی صورتحال انتہائی اعصاب شکن ہے۔ حالات اس محاذ آرائی کی طرف جارہے ہیں، جس کا خدشہ بہت پہلے سے ظاہر کیا جا رہا تھا۔

محاذ آرائی کا دائرہ سیاسی جماعتوں سے بہت آگے تک وسیع ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال میں تمام فریقوں نے تدبر سے کام نہ لیا تو پاکستان ان مسلم ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے، جو سیاسی عدم استحکام اور انتشار کا خمیازہ بھگت چکے یا بھگت رہے ہیں۔ اب ساری ذمہ داری حکومت پر ہے مگر حکومت اب تک غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ لبنان اور عراق کی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔

حکومت اور اپوزیشن دونوں نہ صرف پسپائی اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں بلکہ دونوں پسپائی اختیار کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں متحدہ اپوزیشن کے لانگ مارچ اور دھرنے میں جس طرح بھرپور سیاسی طاقت کا مظاہرہ ہوا ہے، اسے محض ایک ایسا سیاسی احتجاج قرار نہیں دیا جا سکتا، جس کے ختم ہونے کے ساتھ ہی اس کے سیاسی اثرات بھی ختم ہو جائیں گے۔

اس لانگ مارچ اور دھرنے کے نتیجے میں پاکستان کی سیاست میں کیفیتی تبدیلی کو روکا نہیں جا سکتا۔ مولانا فضل لرحمٰن نے اپوزیشن کے ساتھ طویل مشاورت اور اپنی پارٹی کے لوگوں کے ساتھ مکمل بحث و مباحثے کے بعد اپنی زندگی کا سب سے بڑا سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا۔

ایسے سیاسی احتجاج ہر روز نہیں ہو سکتے کم از کم پچھلی ایک دہائی میں ایسا بڑا احتجاج نظر نہیں آیا۔ انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان کو دو دن میں مستعفی ہونے کا الٹی میٹم بھی انہوں نے سوچے سمجھے بغیر نہیں دیا ہوگا۔

مولانا فضل الرحمٰن اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ سیاسی طور پر بہت آگے چلے گئے ہیں۔ ان کے لئے واپسی بہت مشکل ہے۔ اگر وہ اپنے مطالبات سے دستبردار ہوتے ہیں تو نہ صرف اپوزیشن کی سیاست پر بہت منفی اثرات پڑیں گے بلکہ خود مولانا فضل الرحمٰن کو بھی سیاسی طور پر بہت نقصان ہوگا۔ اگر ان کا یہ احتجاج اس مرحلے پر حکومتی طاقت یا انتظامی اقدامات سے ختم کر دیا جاتا ہے تو پھر اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنے کا عندیا دیا ہے، جس کے تحت وہ پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیں گے، شٹر ڈاون اور روڈ بلاک کریں گے اور احتجاج کو پورے ملک میں پھیلا دیں گے۔

دوسری طرف تحریک انصاف کی حکومت وزیراعظم کے استعفیٰ یا قبل از وقت انتخابات کے اپوزیشن کے مطالبے پر بات چیت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ظاہر ہے کوئی بھی حکومت ایسا مطالبہ آسانی سے نہیں مانتی، حکومت یہ بھی واضح کر چکی ہے کہ اپوزیشن کے مظاہرین اگر حکومت کی عمل داری کو چیلنج کریں گے تو ان سے قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔ اب تصادم اور محاذ آرائی کے حالات پیدا ہو چکے ہیں، اگر اس مرحلے پر مظاہرین کو طاقت سے منتشر کر دیا جاتا ہے تو بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ احتجاج ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا کیونکہ اپوزیشن کے لئے اب سکون سے بیٹھنا خود اس کےلئے سیاسی طور پر نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

حکومت بھی احتجاج سے نمٹنے کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے۔ تصادم اور محاذ آرائی حکومت اور اپوزیشن تک اس لئے محدود نہیں رہے گی کہ اپوزیشن اب کھل کر اداروں سے غیر جانبدار رہنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اس طرح کی باتیں پہلے کبھی نہیں کی گئی تھیں۔

بدقسمتی سے یہ نظر آرہا ہے کہ مسئلہ مذاکرات سے حل نہیں ہوگا۔ سیاسی محاذ آرائی بڑھتی رہے گی اور اس کا دائرہ بھی وسیع ہوتا رہے گا۔ تحریک انصاف کے 2014 اور 2016 کے دھرنوں میں بھی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس وقت جو محاذ آرائی ہے، وہ 2014اور 2016سے شروع ہو چکی تھی اور اب اپنی شدت کے ساتھ موجود ہے۔

ان دھرنوں کے نتیجے میں میاں محمد نواز شریف نے اگرچہ استعفیٰ نہیں دیا تھا لیکن اس دھرنے کی وجہ سے پاناما لیکس کا کیس سپریم کورٹ میں چلنے کا مطالبہ حکومت نے تسلیم کیا اور اس کیس کے نتیجے میں میاں نواز شریف نکال دیئے گئے۔ 2014 اور2016 کے دھرنے اس طرح کامیاب قرار دیئے جا سکتے ہیں۔

پاکستان کے مقتدر حلقے فریقین کو باعزت طریقے سے بیچ کا راستہ بنا کر بھی دیں تو یہ ایک عارضی حل ہوگا۔ اب وقت آ گیاہے کہ سیاسی اور ریاستی اداروں کے مابین مکمل ڈائیلاگ کا انعقاد کیا جائے، جس کی ضرورت کا اظہار ایک مرتبہ سینیٹ آف پاکستان میں اُس وقت کے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کیا تھا اور جس کی تائید سینیٹ کے اکثریتی ارکان نے کی تھی۔

ایک مرحلے پر میاں ثاقب نثار نے بطور چیف جسٹس آف پاکستان بھی یہ تجویز دی تھی کہ اداروں کے مابین ڈائیلاگ (مکالمہ) کیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ تجویز اپنے ساتھی ججز کی مشاورت کے بعد وہ دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تجویز عدلیہ کی طرف سے تھی۔ اس مکالمے یا ڈائیلاگ کی طرف جانے کے لئے بھی پہلے اپوزیشن کے حالیہ احتجاج پر کوئی فیصلہ لینا ہوگا۔ ورنہ یہ محاذ آرائی ختم ہونے والی نہیں۔

تازہ ترین