کراچی(جنگ نیوز)جیو کے پروگرام ’نیا پاکستان ‘شہزاد اقبال کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے سربراہ مسلم لیگ ق چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن چاہتے ہیں مسئلہ افہام و تفہیم سے حل ہو ہم بھی یہی چاہتے ہیں۔
جے یو آئی کے رہنما حافظ حسین احمد نے کہا کہ عمران خان نے جو زبان استعمال کی اس نے ماحول کو پراگندہ کیا،وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے کہا کہ ہمارے دھرنے ان سے بڑے تھے لیکن وزیراعظم نے تب بھی استعفیٰ نہ دیا ،پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ پیپلزپارٹی عوام کے دباؤ کی وجہ سے دھرنے میں شرکت نہ کرنے کے موقف پر نظرثانی کرسکتی ہے۔
سینئر صحافی تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن آہستہ آہستہ اپنے اسٹیج کو آگے لے کر جائیں گے،حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کو فیس سیونگ دینے کی کوشش کریں۔
سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن غیرمنتخب ہیں انہوں نے الیکٹڈ پراسس کو یرغمال بنالیا ہے، اس ایونٹ سے سب کمزور ہوں گے مولانا فضل الرحمٰن خود عمارتوں میں چلے جاتے ہیں اور کچھ لوگ ہرٹ ہوتے ہیں تو نقصان ہوگا یہ سسٹم لپیٹا جائے گا، احتجاج کرنا اپوزیشن کا حق ہے لیکن جتھوں کے ذریعہ وزیراعظم کا استعفیٰ مانگنا درست نہیں ہے۔
جے یو آئی کے رہنما حافظ حسین احمد نے کہا کہ عمران خان نے جو زبان استعمال کی اس نے ماحول کو پراگندہ کیا، ہم آگے بڑھنے استعفیٰ لینے کیلئے سب کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں، پی ٹی آئی اپنے دھرنے میں علامہ طاہرا لقادری کے قدموں پر ہاتھ رکھ کر ان کے مدرسوں کے طالب علموں اور اساتذہ کو مدد کے لیے لائی تھی، ہم بھی وہی چاہتے ہیں جو پی ٹی آئی چاہتی تھی پیچھے کسی کو ہٹنا ہے تو عمران خان کو ہی ہٹنا ہے، پی ٹی آئی کی بنیاد رکھنے والے لوگ مظلوم ہیں تحریک انصاف میں گھس بیٹھئے آگئے ہم چاہتے ہیں کہ تمام اپوزیشن ایک پلیٹ فارم پر ہو۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ عوامی مسائل سے نظر چرا کر خاموش ہو کر نہیں بیٹھ سکتے ہیں، دھرنا اصولوں کے لیے ہو رہا ہے اس میں میڈیا کی آزادی بھی شامل ہے، اسلام آباد میں اس سے بڑا مجمع آج تک نہیں ہوا ہے اپوزیشن کا مطالبہ واضح ہے وزیراعظم استعفیٰ دیں اور نئے شفاف انتخابات کروائے جائیں، سیاسی جماعتیں ہمیشہ اپنے سیاسی مقاصد کیلئے اکٹھی ہوتی ہیں، ہم امپائر کی انگلی پر چلتے تو ذوالفقار علی بھٹو پھانسی نہ چڑھتے، معاملہ گفت و شنید سے حل ہونا چاہیے، عمران خان متنازع بیان دے کر اپنی مذاکراتی ٹیم کا کام خود مشکل کررہے ہیں۔