لندن،اسلام آباد،لاہور (مرتضیٰ علی شاہ،نمائندہ جنگ،ایجنسیاں) سابق وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کو گزشتہ روز سروسز ہسپتال لاہور سے اپنی رہائش گاہ جاتی عمرہ منتقل کردیا گیاجہاں ان کی خراب صحت کے پیش نظر آئی سی یو قائم کردیا ۔شریف میڈیکل سٹی کے ڈاکٹر ان کی نگرانی کریں گے،ان سے سیاسی ملاقاتوں پر پابندی عائد کردی گئی ۔ شہباز شریف نے بھائی کو لاہور میں علاج کی ضد ترک کرنے پر راضی کرلیا ،جس کے بعد ان کا شہباز شریف کےہمراہ لندن آنے کاقوی امکان ہے، اس حوالے سے برطانوی ڈاکٹروں سے صلاح ومشورے کئے گئے۔دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ قابل ترین ڈاکٹروں اور بہترین ہسپتال کے باوجود نواز شریف کو علاج کی تمام سہولتیں میسر نہیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں شدید بیمار قیدیوں کو ریلیف دیں۔ ادھر چوہدری شوگرملزم کیس میں ضمانتی مچلکے جمع کرائے جانے کے بعد مریم نواز کو جیل سے رہا کردیا گیا جہاں سے وہ سروسز ہسپتال اور پھر والد کے ہمراہ گھر پہنچیں ۔ تفصیلا ت کے مطابق چوہدری شوگر ملز منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت منظور ہونے کے تیسرے روز مریم نواز کو رہا کر دیا گیا۔ادھر سابق وزیراعظم نوازشریف کو سروسز ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا جہاں سے وہ والدہ اور بیٹی کے ہمراہ سخت سیکورٹی میں اپنی رہائش گاہ جاتی امرا منتقل ہوگئے۔ سابق وزیراعظم کی ہسپتال سے روانگی اور گھر آمد کے موقع پر ن لیگی کارکنان نے ان کی گاڑی پر پھول نچھاور کئےاورنعرے بازی کی۔مریم نواز نے ان کو ہاتھ ہلاکر جواب دیا۔ترجمان مسلم لیگ (ن) مریم اورنگزیب نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ ڈاکٹر عدنان کی زیر نگرانی شریف میڈیکل سٹی ہسپتال نے جاتی امرا میں انتہائی نگہداشت یونٹ قائم کردیا ہے جہاں سابق وزیراعظم 24گھنٹے رہیں گے۔ان سے ملاقاتوں پرپابندی عائد کردی گئی۔ ادھر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ شہباز شریف نے نواز شریف کو اس بات پر بڑی حد تک رضامند کرلیا ہے کہ وہ لاہور ہی میں علاج کرانے کی ضد ترک کر کےعلاج کیلئے لندن جائیں۔ ذرائع کے مطابق شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کے ساتھ ہوں گے اور انھوں نے ہارلے سٹریٹ میں واقع کلینکس، جہاں پلیٹ لیٹس کم ہوجانے والے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے، کے کنسلٹنٹس سے بات چیت بھی کی ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے نواز شریف سے کہا ہے کہ انھیں علاج اور مکمل صحت یابی کیلئے کم از کم 5 ماہ تک لندن میں مقیم رہنا چاہئے۔ شہباز شریف نے اپنے بھائی سے کہا ہے کہ ان کی صحت سیاست سے زیادہ اہم ہے۔ نواز شریف کا صحت مند رہنا اور اس مقصد کیلئے علاج کی ممکنہ بہترین سہولتوں سے استفادہ کرنا چاہئے۔ ذرائع کے مطابق سروسز ہسپتال میں سابق وزیراعظم کے علاج کی نگرانی کرنے والے پینل کے سربراہ ڈاکٹر محمود ایاز نے بھی شہباز شریف کے خیالات کی تائید کی ہے۔ ڈاکٹر ایاز نے کہا ہے کہ نوازشریف کے علاج کیلئے قائم کیا جانے والا میڈیکل بورڈ لکھ کر دے گا کہ انھیں جینٹک ٹیسٹ کیلئے بیرون ملک جانا چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی بیماری کا اصل سبب معلوم کرنے کیلئے اگر ڈاکٹر ان کے جسمانی ٹشوز کے ٹیسٹ کرانا چاہتے ہیں تو ان کا بیرون ملک جانا ضروری ہوگا۔ اسلام آبا د سے نمائندہ جنگ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ 22 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس عامر فاروق نے تحریر کیا ہے جس میں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور کرنے کی وجوہات بیان کی گئی ہیں ۔ فیصلے میں سپیشل میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کو حصہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ آئینی ذمہ داری پوری کرنا ہر ریاستی ادارے پر لازم ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت عدالتی فیصلہ کو آنکھیں کھولنے کے طور پر لے سکتی ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں شدید بیمار قیدیوں کو ریلیف فراہم کریں۔ جینے کا حق ہر شہری کو ہے چاہے وہ آزاد ہو یا قید۔ کئی قیدی صحت اور دیگر بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی پر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ قیدیوں کو بھرپور طبی امداد دینا بھی ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ نواز شریف کا قابل ترین ڈاکٹرز علاج کر رہے ہیں ، بہترین ہسپتال کے باوجود نواز شریف کے علاج کے لئے تمام سہولتیں دستیاب نہیں ، دل اور پلیٹ لیٹس کے علاج کے لئے نواز شریف کو دوسرے ہسپتال جانا پڑ رہا ہے۔ ہسپتالوں کی حالت بہتر اور قیدیوں کو طبی سہولیات دی جائیں تو عدالتوں پر بوجھ نہ پڑے۔ فیصلے کے مطابق نواز شریف کی بیماری جیسے کیسز عدالتوں میں نہیں آنے چاہئیں ، صوبائی حکومت کی لاپرواہی کی وجہ سے ہزاروں بیمار قیدی بے یارو مددگار پڑے رہتے ہیں۔ عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ دوران سماعت نواز شریف کے وکیل نے خدشہ ظاہر کیا کہ پنجاب حکومت سیاسی حریف ہے اس لئے معاملہ وہاں بھجوانے سے سیاسی ہو جائے گا حالانکہ سزا معطلی کے لئے پنجاب حکومت کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 401 کے تحت درخواست دی جا سکتی ہے۔ فیصلے کے مطابق صرف اس بناءپر اپنے حقوق سے محروم نہیں رہا جا سکتا کہ موجودہ حکومت سیاسی حریف ہے ، حکومت ہر شہری کے بنیادی حقوق کی محافظ ہے خواہ وہ کوئی بھی فرد ہو۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت کو نیب کیسز میں بھی قیدیوں کی سزا معطلی کا اختیار استعمال کرنے سے نہیں روکا گیا۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 401 کا اطلاق نیب آرڈی نینس کے تحت سزا یافتہ قیدیوں پر بھی ہو گا۔