اپنی راہ کے تنہا مسافر دنیائے اردو ادب میں نمایاں حیثیت رکھنے والے بہترین شاعر ، فلسفی کی آج 17 برسی منائی جارہی ہے۔
آج بھی جون ایلیا کی آواز اُن کے چاہنے والوں کے کانوں کو بھلی لگتی ہے۔اُن کے مشاعروں کی ویڈیوز آج بھی دیکھی اور پسند کی جاتی ہیں۔
ایک مشاعرے میں جون ایلیا غزل پڑھتے ہوئے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور ’پڑھا نہیں جا رہا‘ کہہ کر مشاعرے سے چل دیئے۔
اس مشاعرے میں جون اپنی غزل کا شعر
’مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر، بھلا چکی ہو کیا‘
مکمل نہ کر سکے اور ’یکسر‘ کے بعد مشاعرے سے اٹھ کر چل دیئے۔
ایک اور مشاعرے میں بھی جون ایلیا شعر پڑھتے پڑھتے رو دیئے۔انہوں نے اپنا شعر ،
اسکی امیدِ ناز کا ہم سےیہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجئےعمرگزار دی گئی
مکمل کیا اور مشاعرے کے تمام حاضرین کے سامنے رو پڑے۔ اپنے جذباتی انداز بیان کی وجہ سے جون اپنا کلام سناتے ہوئے اکثر رو پڑتے تھے۔
جون ایلیا کے مطبوعہ شعری مجموعوں کے نام شاید ، یعنی ، گمان ، لیکن ،گویا اور فرنود ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: جون ایلیا کے شعر اور انداز آج بھی ذہنوں میں نقش
ادبی حلقوں میں جون ایلیا اپنی نوعیت کے منفرد شاعر تھے۔
خوبصورت اور جذبات میں گندھے لفظوں کے شاعر جون ایلیا کا سحر آج بھی اُن کے مداحوں پر طاری ہے اور ان کی بے خودی اور منفرد لہجہ بے شمار لوگوں کو یاد ہے۔