• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری‘پرویزخٹک نے پورے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کردیا

اسلام آباد (محمد صالح ظافر / خصوصی تجزیہ نگار) قومی اسمبلی میں آزادی مارچ جبکہ سینیٹ میں اس مارچ سے پیدا شدہ اثرات جمعہ کی پوری کارروائی پر چھائے رہے‘ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جھڑپوں سے دونوں پارلیمانی ایوان میدان حرب بنے رہے۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ وزیر دفاع پرویز خٹک نے قومی اسمبلی میں آزادی مارچ کے حوالے سے اشتعال انگیز زبان استعمال کر کے مذاکرات کے پورے عمل کو سبوتاژ کر دیا ہے بیان کیا جاتا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چودھری پرویزالٰہی کو مولانا فضل الرحمٰن سے مکالمے میں مرکزی کردار تفویض کئے جانے کے سبب وہ بہت برافروختہ ہیں جنہیں وزیراعظم نے مذاکراتی ٹیم کا بھی حصہ بنایا تھا۔ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری جن کا بطور رکن قومی اسمبلی انتخاب شکوک و شبہات کا شکار ہو چکا ہے اب قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے منصب کے لئے آزمائش کا شکار ہو گئے ہیں‘ حزب اختلاف نے ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک دائر کر دی ہے ان کےطرز عمل نے حزب اختلاف کو اس انتہائی قدم کے لئے مجبور کر دیا تھا جو انہوں نے اندھادھند قانون سازی کر کے انجام دیا تھا۔ عدم اعتماد کی اس تحریک کے لئے رائے شماری خفیہ ہو گی‘ایسے ماحول میں جب حکمرانوں کے خلاف جذبات برانگیختہ ہیں ڈپٹی اسپیکر کا عدم اعتماد میں بچ نکلنا کافی دشوار ہو گا‘ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتی ہے تو پورا ماحول ہی تبدیل ہو جائے گا اور حکومتی تام جھام بھی لرزتا دکھائی دے گا۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر بھی حزب اختلاف کے نشانے پر ہیں‘ وزیراعظم عمران خان کے استعفیٰ کیلئے آزادی مارچ کے دبائو میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے حکومت کرکٹ کی اصطلاح میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دونوں کی حزب اختلاف کے سامنے ’’بیک فٹ‘‘ پر آ چکی ہے‘ وزراء کے اشتعال انگیز بیانات ایک طرف تو دوسری جانب آزادی مارچ کے شرکاء سے ان کی شرائط پر مفاہمت کا ڈول ڈالا جا رہا ہے اور استدعا کی جا رہی کہ وزیراعظم کا استعفیٰ طلب کرنے سے گریز کیا جائے۔سینیٹ میں بھی حکومت اور حزب اختلاف کی سرپھٹول میں کمی آنے کا نام نہیں لے رہی‘ قائد ایوان شبلی فراز نے جمعہ کو سابق وفاقی وزیر پرویز رشید سے ’’ملاکھڑا‘‘ کر ڈالا‘جمعہ کے روز انہوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ سینگ پھنسا لیا اور کہا کہ اس پارٹی کو مولانا فضل الرحمٰن کا ساتھ دینے کے بعد اب ذوالفقار علی بھٹو کا نام لینا ترک کر دینا چاہئے ‘پارلیمانی راہداریوں میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صحت میں سنگین بگاڑ پر گہری تشویش کا اظہار ہوتا رہا اور دعا کی جاتی رہی کہ وہ بیرون ملک علاج کے بعد جلد صحت یاب ہو کر وطن واپس لوٹ آئیں۔

تازہ ترین