• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اہلِ کراچی کا یہی قصور ہے کہ اُنہوں نے جسے اپنا سمجھا، جسے اپنے دکھ درد کو سمجھنے اور اُس کا تدارک کرنے والا سمجھا اُسے اپنے لئے منتخب کر لیا۔ یہ پاکستانی سیاست کے اعتبار سے بڑی غلط بات ہے کیونکہ جس جماعت کے پاس سندھ کا اقتدار ہو وہی جماعت بلدیاتی نظام کی ذمہ دار بھی اگر ٹھہرے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن جب دو سیاسی مخالفین آمنے سامنے کھڑے ہوں تو پھر ہر مسئلہ مسئلہ ہی رہتا ہے۔ اس کھینچا تانی میں نقصان اہلِ کراچی کا ہے۔ ہر کوئی اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے بجائے اپنے مخالف پر ڈال کے سمجھتا ہے کہ اُس نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ اسی کشمکش میں کراچی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے۔ کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ موسم کی تبدیلی اور گندگی کی وجہ سے کئی موزی امراض پھیل رہے ہیں۔ ڈینگی، ٹائیفائیڈ، ملیریا، نزلہ و زکام کا تو کہنا ہی کیا، ہر طرف پریشانی ہی پریشانی ہے، سڑکیں خستہ حال ہو کر دھسنے لگی ہیں، سیوریج کی لائنیں جواب دے گئی ہیں، سڑکیں گندے پانی کا تالاب بنی ہوئی ہیں۔ سونے پر سہاگہ ترقیاتی کام کے نام پر کھودی جانے والی سڑک کو بھی مٹی ڈال کر یوں ہی بند کر دیا جا رہا ہے کیونکہ سڑک کھودنے کا کام اگر ایک محکمہ کا ہے تو سڑک مرمت کرنے کا کام کسی دوسرے محکمہ کا ہے۔ اس محکمہ کے پاس چونکہ فنڈ نہیں ہوتے اس لئے سڑک کی کیسے مرمت ہو۔ میئر کراچی صوبائی حکومت کو موردالزام ٹھہرا رہے ہیں اور صوبائی حکومت وفاقی حکومت پر الزام لگا رہی ہے کہ وفاق تعاون نہیں کررہا۔ اس ساری کھینچا تانی میں کراچی کی کسی کو کوئی فکر نہیں۔ وفاق میں حکومت تحریک انصاف کی ہے، وہ سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی وجہ سے سندھ کو نظر انداز کر رہی ہے حالانکہ سندھ میں گورنر تحریک انصاف کا ہے۔ بلدیہ ایم کیو ایم چلانے کی ذمہ دار ہے۔ تینوں جماعتیں صرف اپنے اپنے مفادات کو مقدم رکھے ہوئے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں نے اہلِ کراچی کو بالکل بےحس کردیا ہے۔ ہر فرد اپنےکام سے کام رکھنے والا بن کر جی رہا ہے۔ اہلِ کراچی کے کسی فرد کو فرصت نہیں کہ وہ اپنے منتخب کردہ نمائندوں سے پوچھ سکے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ منتخب ارکان چاہے وہ قومی اسمبلی کے ہوں یا صوبائی اسمبلی کے یا کسی بلدیاتی ادارے کے، انہیں عوام سےعوامی مسائل سے اس وقت تک دلچسپی تھی جب تک وہ منتخب نہیں ہوئے تھے۔ رات گئی بات گئی۔ اب منتخب ہونے کے بعد انھیں اپنے علاقوں کے مسائل و مفادات سے کہیں زیادہ اپنے مفادات کی فکر ہوتی ہے۔ کراچی میں گزشتہ دنوں تجاوزات کے خاتمے کے نام پر لاکھوں افراد کو نہ صرف بےگھر کیا گیا بلکہ لاکھوں کو بے روزگار بھی کر دیا گیا۔ شاید اس سبب بھی کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوا ہے جو مقامی انتظامیہ کے بس سے باہر ہے۔ حکمرانِ وقت کو اتنی فرصت نہیں کہ وہ کراچی کے مسائل و معاملات کو حل کرنے کے بارے میں سوچ سکیں، شاید اُن کا بس نہیں چل رہا کہ وہ کس طرح سندھ کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیں۔ جب نیت ہی نہ ہو مسائل حل کرنے کی تو مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں۔ میئر بلدیہ کا بس نہیں چلتا کہ وہ گھڑی کی چوتھائی میں صوبائی حکومت کو تہس نہس کردیں کیونکہ صوبائی حکومت انہیں اُن کے بقول نہ فنڈ فراہم کررہی ہے، نہ کام کرنے دے رہی ہے جبکہ صوبائی حکومت کا مؤقف ہے کہ بلدیہ کو اِس کی ضرورت سے کہیں زیادہ فنڈ دئیے گئے ہیں۔

ایم کیو ایم بھی اپنے ووٹر کے لئے کچھ نہیں کر پا رہی۔ اللہ جانے کراچی کب کروٹ لے گا، کب اہلِ کراچی کو ہوش آئے گا، وہ کراچی کو درپیش مسائل کے لئے اپنی ذمہ داری کا احساس کریںگے جب تک عوام نہیں جاگیں گے تب تک یونہی رسہ کشی ہوتی رہے گی اور کراچی کا حال بد سے بدتر ہوتا چلا جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کراچی والے اس بدحالی میں زندگی بسر کرنے کے عادی ہو جائیں تو پھر کوئی مسئلہ ہی نہیں رہےگا۔ کراچی جو سب سے زیادہ آبادی کاشہر ہے وہ پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے اس کے باوجود سب سے ابتر حال میں ہے۔جو حالات آج کراچی اور اہلِ کراچی کو درپیش ہیں اس سے کہیں کم خراب حالات تھے جب اہلِ کراچی ایک کروٹ لے کر کھڑے ہوئے تھے اور ایم کیو ایم نے جنم لیا تھا۔ ایم کیو ایم نےجو طاقت کراچی بلکہ سندھ کے شہری علاقوں میں حاصل کر لی تھی اس سے مرکزی اہلِ اقتدار پریشان ہو گئے تھے۔ اس طاقتور جماعت کو اندرونی اور بیرونی دونوں طرح سے توڑا جا رہا ہے۔ باہمی اختلافات پیدا کر کےکراچی کی مضبوط آواز کو کرختم کردیا گیا۔ اللہ کراچی کاحامی و ناصر ہو۔ آمین!

تازہ ترین