• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے عام انتخابات 2018سے متعلق بعد از جائزہ جو پہلی رپورٹ حکومت کو دی اس سے کئی معاملات میں اٹھنے والے سوالات پر روشنی پڑتی اور ان دیگر امور پر بھی توجہ، اقدامات اور قانون سازی کی ضرورت اجاگر ہوتی ہے جن کی نشاندہی مذکورہ رپورٹ میں کی گئی۔ وطنِ عزیز میں انتخابی دھاندلی کے الزامات کی روایت خاصی پرانی ہے اور اس وقت بھی الیکشن 2018کے نتائج پر بےاطمینانی کے اظہار کیلئے مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں اپوزیشن کی 9جماعتوں کا حمایت یافتہ ایک مارچ یا دھرنا اسلام آباد میں نہ صرف کئی روز سےجاری تھا بلکہ اب پلان ’’بی‘‘ کی طرف بڑھتا محسوس ہو رہا ہے۔ اس پسِ منظر و پیش منظر میں الیکشن کمیشن کی جائزہ رپورٹ سے کئی امور پر بحث کا موضوع بننے والے سوالات کے جواب بھی ملتے ہیں جبکہ چیلنجز کی نشاندہی کے ساتھ کمیشن کی سفارشات میں قانون سازی سمیت جن اہم اقدامات کی ضرورت اجاگر کی گئی ہے، ان سے استفادہ کیا جائے تو انتخابی عمل کے دوران پیدا ہونے والے بعض مسائل پر قابو پایا جا سکتا اور انتخابات کو زیادہ معتبر بنایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر آر ٹی ایس کے حوالے سے رپورٹ کا کہنا ہے کہ تمام پولنگ اسٹیشنوں میں اس پر عملدرآمد ایک ایسے وقت میں بہت بڑا چیلنج تھا جب اس علاقے میں انٹرنیٹ کوریج محض 60فیصد تک محدود تھی۔ اس کے علاوہ 85ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنوں پر آر ٹی ایس میں اسمارٹ فون کے استعمال کا بندوبست ایک بہت بڑا کام تھا جس میں کافی رقم شامل تھی، ٹیکنالوجی سے ناآشنا پریزائڈنگ افسران کی آر ٹی ایس کے حوالے سے تربیت بھی ایک اور بڑا چیلنج تھا۔ مذکورہ بالا معاملات سے پیدا ہونے والے مسائل کے باعث کمیشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کا تعارف فول پروف ہونے اور میدان میں عملی ہونے تک قانون کے تحت لازمی نہیں ہونا چاہئے۔ الیکشن کمیشن نے مذکورہ چیلنجز کو پیش نظر رکھتے ہوئے الیکشن ایکٹ 2017کے سیکشن13 (2)کی شق پر دوبارہ غور کی ضرورت اجاگر کی جبکہ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے فراہم کردہ غلط نقشوں کی درستی پر بھی زور دیا ہے کیونکہ ان کی مدد سے ہونے والی حلقہ بندیوں میں ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں کہ بلوچستان میں مختلف پٹوار حلقوں کو کوئٹہ اور قلعہ عبداللہ کے مختلف غیر متصل علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ایسی ہی متعدد مثالوں سے ان تجاویز کی اہمیت اجاگر کی گئی جو رپورٹ میں کی گئی ہیں۔ مختصر لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ کمیشن نے رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) ترک کرنے، پرانی حد بندیوں کے نقائص دور کرنے کیلئے نئی حدبندیاں کرنے، پچھلی انتخابی فہرستیں ناقص ہونے کے باعث نئی انتخابی فہرستیں بنانے، انتخابات کے انعقاد کے موجودہ تین ماہ تا چھ ماہ دورانیے میں مستقل توسیع دینے اور اگلے تمام انتخابات میں تجربہ کار ریٹرننگ افسران کی تقرری کی تجاویز دی ہیں۔ ان تجاویز سے واضح ہے کہ کئی قوانین، خاص طور پر الیکشن ایکٹ 2017میں ترمیم ناگزیر ہو چکی ہے۔ ایسے وقت کہ الیکشن 2018میں آر ٹی ایس سمیت کئی حوالوں سے سامنے آنے والے سوالات پر روشنی پڑ رہی ہے اور بعض اہم تجاویز سامنے آئی ہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انتخابی عمل میں شفافیت دیکھنے کے خواہشمند تمام حلقے اور پارٹیاں ان تجاویز کا اجتماعی جائزہ لیں۔ اس اجتماعی جائزے کا اہتمام وفاقی حکومت کو کرنا چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں شروع کیا جانے والا مارچ انتخابی عمل کو معتبر بنانے کے حوالے سے خاصی حد تک ثمربار رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو ہیجانی کیفیت سے نکالنے کیلئے حکومت اور اپوزیشن کی مذاکراتی ٹیمیں جلد کسی سمجھوتے پر پہنچیں۔

تازہ ترین