• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی کے بے خبر وزرا اور ترجمان طعنے دیتے رہیں گے اور مولانا سنتے رہیں گے۔ اسکرپٹ کے مطابق چلنے والے تجزیہ کار بھی مولانا کو ناکام قرار دیتے رہیں گے، شاید مولانا کے ووٹرز اور سپورٹرز بھی کچھ وقت کے لئے دل گرفتہ رہیں لیکن چند ماہ میں واضح ہو جائے گا کہ مولانا نے کیا کھیل کھیلا ہے۔

کچھ تو ظاہری فائدے ہیں جن سے مولانا نے اپنی جھولی بھر دی لیکن کچھ در پردہ فائدے ایسے ہیں کہ جن کے اثرات وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آئیں گے۔ ان در پردہ فائدوں کا مولانا اور ان کے دو تین خاص بندوں کا علم ہے، شاید چوہدری برادران کو یا پھر ان لوگوں کو جنہوں نے عنایت کی ہیں۔

ظاہری فائدے تو وہی ہیں کہ جو ہر کسی کو نظر آرہے ہیں۔ مثلاً آزادی مارچ سے قبل مولانا کو بارہویں کھلاڑی ہونے کا طعنہ دیا جارہا تھا لیکن اب وہ اوپننگ بیٹسمین بن گئے۔ پہلے ان کو بطور بائولر بھی نہیں کھیلنے دیا جا رہا تھا لیکن اب وہ آل رائونڈر بن گئے۔ اپوزیشن کی ڈرائیونگ سیٹ پر بھی بیٹھ گئے اور حکومت کی جڑوں میں بھی۔

دیکھئے پروگرام ’جرگہ، سلیم صافی کے ساتھ‘ آج شب10:05 منٹ پر


کل تک ان کو تین چار سیٹوں کی حامل جماعت کا لیڈر سمجھا جا رہا تھا لیکن دھرنوں کے ذریعے انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ ایک ایسی قومی جماعت کے سربراہ ہیں کہ جو ہزاروں ایسے کارکنوں کو اسلام آباد لا سکتی ہے جو مرنے مارنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔

انہوں نے اپنی جماعت کا امیج بھی بہتر بنا دیا۔ کل تک یہ سمجھا جا رہا تھا کہ جے یو آئی طالبان کی حامی، طالبان جیسی کوئی جماعت ہے لیکن آزادی مارچ کے ذریعے اس نے لبرل اور سیکولر طبقات کے دلوں میں اپنے لئے نرم گوشہ پیدا کیا اور یہ پیغام دیا کہ ان کی جماعت پی ٹی آئی سے زیادہ مہذب اور قانون کی پاسداری کرنے والی ہے۔

آزادی مارچ کے ذریعے انہوں نے اپنے ساتھ اسٹیج پر محمود خان اچکزئی سے لے کر میاں افتخار حسین تک اور شہباز شریف سے لے کر بلاول بھٹو تک کے رہنما کھڑے کروا کر ان سے اپنی تعریفیں کروائیں تو دوسری طرف حکومتی وزرا سے اپنے گھر کے طواف کروائے۔ کچھ وقت کے لئے سہی لیکن انہوں نے میڈیا پر عائد سخت ترین سنسر شپ ختم کروا دی۔ آزادی مارچ سے قبل ان کے انٹرویوز نشر کرنے پر بھی پابندی تھی لیکن گزشتہ پندرہ بیس دنوں کے دوران وہ ٹی وی اسکرین سے اترے نہیں۔

مولانا کے آزادی مارچ کا ان سے زیادہ ان کے اتحادیوں کو فائدہ ہوا۔ اس کے دبائو سے میاں شہباز شریف کے ساتھ مفاہمت کا سلسلہ تیز تر ہوگیا اور اتنی ڈھیل ملی کہ ڈیل کی منزل قریب نظر آنے لگی۔ پیپلز پارٹی کی ابھی ڈیل نہیں ہوئی لیکن اسے ڈھیل خوب مل گئی اور شاید مستقبل قریب میں ڈیل بھی ہو جائے۔

آزادی مارچ کی وجہ سے تاجروں کو بھی فائدہ ہوا اور اس دبائو کی وجہ سے وفاقی حکومت نے ان کے ساتھ ڈیل کرلی۔ اسی طرح کا فائدہ خیبر پختونخوا کے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکس کو بھی پہنچا۔ وہ دو ماہ سے ہڑتال پر تھے اور ان کو جیلوں میں بھی ٹھونسا گیا لیکن وزیراعظم کے کزن نوشیروان برکی کے خوف سے نہ وزیراعلیٰ ان سے بات کر رہا تھا اور نہ کوئی اور ان کی دہائی سننے کو تیار تھا۔

مولانا کے دھرنے کے خوف سے نوشیروان برکی کا غرور کچھ کم ہوا اور ڈاکٹروں کے ساتھ مذاکرات کئے گئے۔

جاننے والے جانتے ہیں کہ مولانا کے آزادی مارچ کے اصل معاملات پس پردہ طے ہو رہے تھے۔ وہاں جو تبدیلیاں آئیں وہ بھی غیر معمولی ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ پی ٹی آئی کے اتحادیوں کو ملا۔ ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) اور بی این پی (مینگل) کو گزشتہ سوا سال کے دوران کوئی خاص گھاس نہیں ڈالی جا رہی تھی لیکن آزادی مارچ کی برکت سے ان کی وزیراعظم ہائوس میں آئو بھگت شروع ہوئی۔

پتا نہیں، یہ اچھا نتیجہ ہے یا برا لیکن بہرحال یہ ضرور سامنے آیا کہ وزیراعظم کو تیزی سے احساس ہو رہا ہے کہ وہ بھی سابق وزرائے اعظم کی طرح ایک وزیر اعظم ہیں۔ وہ اپنے آپ کو نواز شریف جیسا وزیراعظم سمجھنے لگے تھے لیکن اب دوبارہ اپنے سابقہ مقام پر آگئے۔ کچھ اہم لوگوں کو انہوں نے چائے پلانا بھی چھوڑ دی تھی لیکن اس دوران ان کو گھر پر پُرتکلف کھانے بھی کھلا دیئے۔

مولانا نے جو در پردہ فائدے اٹھائے اور جن کی وجہ سے وہ ظاہری حد تک رسوا ہوکر اسلام آباد چھوڑنے پر آمادہ ہوگئے، ان میں سرفہرست تو یہ ہے کہ انہیں تسلی کرائی گئی کہ کچھ وقت کے انتظار کے بعد ان کی خواہشات پوری ہو جائیں گی۔ اسی طرح کچھ لوگ جو گزشتہ تین سال کے دوران مولانا کا نام سننے کو تیار نہ تھے، نہ صرف یہ کہ ان کے ساتھ رابطے میں آگئے بلکہ مستقبل میں ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا بھی وعدہ ہوا ہے۔

یوں مولانا ناکام ہوکر نہیں بلکہ اپنی دانست میں جھولی بھر کر اسلام آباد سے اٹھ گئے ہیں۔ اسی طرح وہ احتجاج میں تیزی لانے کے لئے نہیں بلکہ احتجاج کو دھیرے دھیرے ختم کرنے کے لئے پلان بی کی طرف گئے ہیں۔ گویا پلان اے جتنا سنجیدہ تھا، پلان بی اتنا ہی غیر سنجیدہ ہے لیکن اب معمولی سی غلطی سے مولانا حاصل کردہ سب کچھ، کھو بھی سکتے ہیں۔

اس پورے عمل میں جس طرح مولانا سے ایک بڑی غلطی اسلام آباد پہنچ کر دو دن کی ڈیڈ لائن دینے کی سرزد ہوئی تھی، اسی طرح اب انہوں نے ایک بڑی غلطی کا ارتکاب فیس سیونگ کے لئے پلان بی کا آغاز کر کے کیا ہے۔ مولانا کے لئے بہتر فیس سیونگ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کی صورت میں ہو سکتی تھی لیکن انہوں نے اس خوف سے دھرنا ختم کرنے کے عمل سے اسے باہر رکھا کہ اس صورت میں ان کے خفیہ طور پر طے پانے والے معاملات کے افشا ہونے کا خطرہ تھا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کا پلان اے جس قدر جمہوری اور مستحسن تھا، اس قدر پلان بی خلافِ قانون ہے۔

سڑکوں کی بندش ظلم اور قابلِ مذمت قدم ہے۔ یوں بھی عوام کو تکلیف دینا اور معمولاتِ زندگی متاثر کرنا ظلم اور گناہِ عظیم ہے لیکن پھر اگر وہ نمائشی ہو تو اس سے بھی بڑا ظلم بن جاتا ہے۔

اس لئے بہتر ہوگا کہ لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کے بجائے مولانا اپنے کارکنوں کو واضح طور پر بتائیں کہ بس کام ہوگیا ہے اور وہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ سڑکوں کی بندش کا یہ نمائشی احتجاج بڑا رسکی کام ہے۔ اگر کسی ایک جگہ بھی فساد ہوگیا تو مولانا نے جو کچھ حاصل کیا ہے، ان سب سے محروم بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لئے بس! مولانا بس! جو کچھ ملا ہے، پلیز اس پر قناعت کر لیجئے۔

تازہ ترین