• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

متحدہ عرب امارات نے 2019کو رواداری کا سال قراردے دیا

تحریر…حماد عبید ابراہیم سالم الذہبی
سفیر برائے متحدہ عرب امارات
اسلام آباد میں متحدہ عرب امارات کے سفیراسلامی جمہوریہ پاکستان میں میری تعیناتی سے اب تک میں نے اس برادرانہ قوم کے خلوص اور گرم جوشی کو محسوس کیا ہے۔جب کہ یہاں مختلف تہذیبوں کی بڑی تاریخ اور ہر شعبے میں ممکنات ہیں۔وہ پاکستان کے انسانی وسائل ہیں جو اسے دیگر سے ممتاز کرتا ہے، جس ملک میں اتنے قابل افراد موجود ہوں وہاں ہر شعبے میں صلاحیتوں کا ہونا یقینی ہے۔اس کے باوجود اس خوب صورت ملک کو حالیہ برسوں میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عفریت کا سامنا رہا، حالاں کہ دونوں میں بے انتہا فرق ہے۔گو کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف اس ملک نے کامیابی سے جنگ لڑی ہے مگر اسے صرف نظریاتی بنیادوں پر ہی شکست دی جاسکتی ہے۔خطے اور عالمی سطح پر اس برائی کے خاتمے کے لیے ہمیں لازمی طور پر اپنی تہذیب و تمدن کو اختیار کرنا ہوگا، جس میں سب سے افضل برداشت کا مادہ ہے۔برداشت سے مراد مختلف نظریات، ثقافتیں، عقائد ، رنگ اور زبانوں کو قبول کرنا ہے۔اس کے چار اجزاء ہیں۔ یعنی انسانیت، عزت، بقائے باہمی اور مختلف ثقافتوں کو قبول کرنا۔موجودہ حالات کے تناظر میں برداشت کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت اب ہے۔اسی بات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے متحدہ عرب امارات نے اسے اجاگر کرنے کے لیے قومی، خطے اور عالمی سطح پر بہت سے اقدامات کیے ہیں۔متحدہ عرب امارات کے بانی شیخ زاید بن سلطان النہیان نے مساوات، رواداری اور چیئریٹی جیسی عظیم اقدار بطور میراث چھوڑا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ برداشت اور معافی فرض ہے۔جب ذات باری تعالیٰ معاف کرسکتی ہے تو ہم انسان جو کہ اس کی مخلوق ہیں کیا ہم معاف نہیں کرسکتے؟ یہی وہ اقدار ہیں جو متحدہ عرب امارات کے معاشرے میں آج اہم کردار ادا کررہی ہیں۔جہاں قبولیت اور تنوع ملک کی شناخت کا اہم حصہ ہے، جہاں 200 سے زائد مختلف قومیں ایک ساتھ پرامن طریقے سے رہ رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ متحدہ عرب امارات نے تاریخ میں پہلی مرتبہ وزارت برداشت تشکیل دی ہے اور 2019 کو رواداری کا سال قرار دیا ہے۔رواداری کا سال اس بات کا عکاس ہے کہ متحدہ عرب امارات کے قیام سے جو سوچ اختیار کی گئی ہے یعنی دنیا بھر کے لوگوں اورثقافت کے درمیان ابلاغ اور مرکزیت کا پل باندھا جائے جو کہ عزت اور قبولیت کے ماحول کے تحت ہو۔روادارہ اور برداشت کے جس جذبے سے متحدہ عرب امارات تمام مذاہب اور ثقافتوں کا احترام کرتا ہے وہ اس کی عوامی پالیسیوں کا مظہر ہے۔جس کی قیادت شیخ زاید کررہے ہیں اور یہ شروع سے ہی ملک کے وژن کا مرکزی حصہ ہے۔متحدہ عرب امارات کو یہ امتیاز حاصل ہے اور وہ اس کی بہترین مثال ہے کہ اس نے دنیا بھر کی سیکڑوں قوموں کے 90 لاکھ افراد کو اپنی جانب راغب کیا ہے اور اب تک ایک آزاد معاشرے کی تعمیر کررہا ہے۔رواں برس کے آغاز میں پوپ فرانسس نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا اور ان کے قیام کے دوران امام الاظہر جو کہ عالم اسلام میں بڑی شخصیت تصور کیے جاتے ہیں انہوں نے بھی متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا۔ان دونوں مذہبی پیشوائوں نے انسانی برادری کے دستاویز برائے عالمی امن اور اخوت پر دستخط کیے تھے۔جس کے ذریعے دنیا کو امید اور امن کا موثر پیغام بھیجا گیا تھا۔دریں اثناءالاظہر کے امام کی موجودگی نے خطے کے مسلمانوں کو یہ اہم پیغام بھیجا تھا کہ برداشت کی اس اقدار کا قبول کیا جائے۔دبئی کی حکومت نے بھی عالمی انسٹیٹیوٹ برائے رواداری کا آغاز کیا ، جس کا مقصد خطے اور عالمی سطح پر رواداری کے رجحان کو فروغ دینا تھا، تاکہ شدت پسندی کے مسئلے کا تدارک کیا جائے اور متحدہ عرب امارات کو رول ماڈل کے طور پر فروغ دیا جائے۔انسٹیٹیوٹ کا خاص مقصد کھلے ڈائیلاگ کی حوصلہ افزائی کرنا ہے اور انتہا پسندی ، جنونیت اور فکری جبر کے خلاف اسلام کا پرامن اور اصل چہرہ سامنے لانا ہے۔2012 میں ابوظبی میں ہدایۃ سینٹر کا افتتاح کیا گیا تھا، جو کہ انتہا پسندی کے تدارک کے لیے عالمی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ انتہاپسندی کے تدارک کے حوالے سے عملی طور پر اچھا اور عالمی ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔جب کہ یہ خطے میں رواداری، استحکام اور سلامتی کو فروغ دے رہا ہے۔رواں ماہ شیخ محمد بن راشد المکتوم جو کہ متحدہ عرب امارات کے وزیراعظم اور دبئی کے حکمران ہیں کی سربراہی میں عالمی رواداری سمٹ کا انعقاد ہوا۔جس میں دنیا بھر سےحکومتی رہنماء، سرکاری اور نجی شعبوں کی اہم شخصیات، امن کے مبصرین نے شرکت کی اور رواداری، امن، مساوات کی اہمیت پر بات کی اور زندگی کے ہرشعبے کے افراد کے تنوع پر کلام کیا۔
تازہ ترین