• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کے عوام میں دن بدن بے چینی بڑھتی جارہی ہے کہ آخر سندھ کو دیوار سے کیوں لگایا جارہا ہے۔

اس سلسلے میں سندھ کے عوام کے مختلف حلقوں سے جن ایشوز کی نشاندہی کی جارہی ہے اس کی کافی لمبی فہرست ہے‘ سب سے آخر میں ایک ایشو جسے 70 ء اور 80 ء کی دہائی میں اچھالا گیا تھا اسے اب ایک بار پھر سامنے لایا گیا ہے‘ یہ ایشو کسی اور نے نہیں وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے اٹھایا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ملازمتوں میں شہری اور دیہی کوٹہ کا فیصلہ غیر شرعی ہے‘ اخبارات میں یہ بیان پڑھ کر سندھ کے اکثر لوگ فروغ نسیم سے یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ کیا انہیں معلوم ہے کہ سب سے پہلے پاکستان میں ملازمتوں میں کوٹہ کب نافذ کیا گیا تھا اور کس کے احکامات کے تحت کوٹہ سسٹم پاکستان میں نافذ ہوا۔


ان عناصر نے وفاقی وزیر قانون کو یاد دلایا ہے کہ پاکستان میں سب سے پہلے ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم پاکستان کے وجود میں آتے ہی نافذ کیا گیا‘ یہ احکامات پاکستان کے پہلے وزیر اعظم قائد ملت لیاقت علی خان نے جاری کئے‘

ان احکامات کے تحت یہ کوٹہ پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے پاکستان آنے والے مہاجروں کے لئے مقرر کیا گیا مگر اس پر سندھ میں سے کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا حالانکہ ہندوستان سے آنے والے مہاجروں کی اکثریت سندھ میں آکر آباد ہورہی تھی مگر سندھ کے کسی باشندے نے اس بات پر اعتراض نہیں کیا‘ سندھ کے لوگوں کو ہندوستان سے آنے والے مہاجروں سے ہمدردی تھی لہٰذا وہ ایسا سوال اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے مگر چونکہ ہمارے موجودہ وفاقی وزیر قانون نے ’’فتویٰ ‘‘ دیا ہے کہ کوٹہ سسٹم کا نفاذ غیر شرعی تھا تو کیا پاکستان کے قابل احترام پہلے وزیر اعظم قائد ملت لیاقت علی خان نے یہ اعلان کرکے اسلامی شریعت کی توہین کی؟۔ کوٹہ سسٹم کا ذکر فقط یہاں ختم نہیں ہوجاتا۔

اس سلسلے میں معلوم کئے گئے حقائق کے مطابق کوٹہ سسٹم کا دوسرا حصہ جس کا دیہی اور شہری کوٹہ ایک اہم حصہ تھا‘ پاکستان کے اس وقت کے سی ایم ایل اے جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے دور میں سندھ کے پختون گورنر جنرل رحمان گل نے نافذ کیا‘

یہ نظام لاتے وقت انہوں نے کہا کہ سندھ کے گورنر کی حیثیت سےمیں نے سندھ کے طول و عرض کا بار بار دورہ کیا مگر ہر بار انہیں یہ دیکھ کر سخت افسوس ہوتا تھا کہ سندھ کے دیہی علاقوں کی کیا حالت ہے لہٰذا انہوں نے سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ سندھ کے دیہی علاقوں کی حالت درست کرنے پر بھی توجہ دینا شروع کی۔

اس سلسلے میں انہوں نے جو فیصلے کئے ان کے مطابق سندھ کی ملازمتوں میں شہری اور دیہی کوٹہ مقرر کیا گیا‘ اسی زمانے میں ان کا یہ بھی بیان سامنے آیا تھا کہ انہوں نے یہ فیصلہ سندھ حکومت میں اردو بولنے والے کچھ سینئر بیورو کریٹس کے مشورے سے کیا۔

جنرل رحمان گل کا کہنا تھا کہ فیصلہ اس وجہ سے کیا گیا کہ کم سے کم ملازمتوں میں سندھ کے دیہی علاقے کے لوگوں کو بھی کوئی حصہ ملے جبکہ بقول ان کے سندھ کے دیہی علاقوں میں تعلیم کی سہولتیں بھی برائے نام تھیں‘ اب ہم اس ایشو کے تیسرے مرحلے پر آتے ہیں۔ یہ مرحلہ اس وقت شروع ہوا جب ذوالفقار علی بھٹو کے ملک کے سربراہ ہونے کے دوران 1973 ء میں ملک کا پہلا قومی آئین پارلیمنٹ سے منظور ہوا۔

اس مرحلے پر اس بات کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے کہ 1973 ء کے آئین کے ڈرافٹ میں جو کوٹہ سسٹم شامل کیا گیا وہ من و عن وہی تھا جو جنرل رحمان گل نے نافذ کیا تھا‘ اس ڈرافٹ میں کوٹہ سسٹم کے بارے میں کوئی بھی نئی شق شامل نہیں کی گئی تھی۔

سندھ کے لوگ حیران ہیں کہ جب سے پاکستان بنا ہے وقفے وقفے سے ایسے اعلانات اور فیصلے کیوں کئے جاتے ہیں۔ کوٹہ سسٹم کے اس ایشو پر سندھ میں جو بھی کھیل کھیلا گیا سندھ کے عوام اس کو بھول چکے ہیں‘ اب تو سندھ کے عوام چاہتے ہیں کہ سندھ جو صدیوں سے امن کی دھرتی ہے وہ امن کی دھرتی ہی رہے‘ اس سوچ کی ایک جھلک کئی دنوں سے سندھ بھر میں ہونے والے مظاہروں اور دھرنوں میں امن کے گیت گاتے اور امن و بھائی چارے کی تبلیغ کئے جانے سے نظر آتی ہے حالانکہ گزشتہ ایک ڈیڑھ دو سالوں سے سندھ کے خلاف جو فیصلے کئے گئے مثال کے طور پر ڈیم بنانے اور علی الاعلان اس کے لئے ملک اور بیرون ملک چلائی گئی مہم جس میں حکومت اور عدلیہ نے اعلانیہ حصہ بھی لیا‘

اب اور باتوں کے علاوہ کراچی کے نزدیک جزیروں پر جو سندھ کی ملکیت ہیں پر قبضہ کرنے کی شروعات اور ساتھ ہی یہ اطلاعات کہ منصوبہ بنایا جارہا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی سمندری پٹی کو ان صوبوں سے الگ کرکے ایک الگ یونٹ بنایا جائے‘

سندھ کے عوام میں کافی اشتعال ہے۔ اس وجہ سے گزشتہ ایک دو ماہ سے سندھ کی مختلف قوم پرست تنظیموں کی طرف سے سندھ بھر میں مختلف علاقوں میں لانگ مارچ اور احتجاجی جلسے کئے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں ان میں سے کچھ تنظیموں کی طرف سے کراچی میں بھی ایسی سرگرمی شروع ہوئی مگر اہم بات یہ ہے کہ ان جلوسوں اور جلسوں میں اردو بولنے والوں کے خلاف بولنے کی بجائے انہیں سندھی کہا گیا اور کہا گیا کہ سندھ ہم سب کی ماں ہے‘ آئیے مل کر سندھ کو بہت آگے لے جائیں۔

اس سلسلے میں دو ہفتے پہلے ڈاکٹر قادر مگسی کی سربراہی میں سندھ ترقی پسند پارٹی کے بڑی تعداد میں کارکنوں نے ایک ہفتے تک کراچی کے مختلف علاقوں میں جلوس نکالے اور آخری جلسہ گورنر ہائوس کے نزدیک منعقد کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے قادر مگسی اور دیگر پارٹی رہنمائوں نے کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں کے اردو بولنے والوں کو بھائی بن کر رہنے کی اپیل کی۔

تازہ ترین