اسلام آباد (شکیل انجم) جمعرات کی رات کراچی کمپنی پولیس سٹیشن کی حدود میں واقع جی نائن ون میں پولیس اپارٹمنٹ کے قریب ایک حساس ادارے کے آفیسر کو گولیاں مار کر قتل کرنے کی ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔
موٹرسائیکل سوار شوٹرز نے حساس ادارے کے افسر کو اس وقت گولیوں کا نشانہ بنایا جب وہ نجی ائیرلائن کی فضائی میزبان کے ساتھ ایک باغ میں بیٹھا ہوا تھا ،آفیسر کو سر میں گولیاں لگیں جس کی وجہ سے وہ موقع پر جاں بحق ہوگیا تھا۔
پولیس نے ایف آئی آر درج کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ رہزنی کا واقعہ تھا جس میں بندوق بردار وں نے تشدد کے دوران مقتول آفیسر کی جانب سے واپس مارنے پر ردعمل کا اظہار کیاجبکہ تصویر کا دوسرا رخ اس کو ٹارگٹ کلنگ کے طور پر دکھا رہا ہے، پولیس کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہے اور قتل کا معمہ وہیں ہے۔محمد ذوہیب کی طرف سے کراچی کمپنی پولیس اسٹیشن کو دی جانیوالی تحریری شکایت میں کہا گیا ہے کہ مقتول افسر لاریب حسن میرا حقیقی بھائی تھا،وہ اپنے ادارے کی طرف سے دی گئی ذمہ داری نبھانے اسلام آباد آیا تھا۔
قریباً 10بجکر 10منٹ پر ان کے ساتھ ایک خاتون تھی جب نامعلوم حملہ آوروں نے ان کو فائر کر کے قتل کردیا، عینی گواہ مس علینہ نے پولیس کو اپنے تحریری بیان میں کہا ہے کہ میں ایک نجی ائیر لائن میں ملازم ہوں، لاریب میرا خاندانی دوست تھا جو ایک حساس ادارے کے ساتھ بطور آفیسر کام کر رہاتھا، لاریب مجھے اپنی کار میں بٹھا کر جی ٹین لے کر آیا، میں جی نائن ون میں خواتین کے ہوسٹل میں رہتی ہوں، میں اور لاریب جی ٹین میں واکنگ ٹریک پر لگے بنچ پربیٹھے ہوئے تھے جب دو نوجوان ہمارے پاس آئے اور کچھ فاصلے پر کھڑے ہوگئے، ان میں سے ایک کے پاس پستول تھا۔
انہوں نے ہم سے کہا کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ انہیں دیدیں، انہوں نے یہ الفاظ دو تین دفعہ دہرائے، اچانک لاریب آگے بڑھا اور ایک کے منہ پر لات ماری جبکہ دوسرا ہم سے دور بھاگا اور فائر کھول دیا، واقعہ کے بعد لوگ جمع ہوگئے اور پولیس کو اطلاع دی، پولیس کے پہنچنے تک لاریب جاں بحق ہوچکا تھا۔
ڈی آئی جی آپریشن، ایس پی انویسٹی گیشن، ایس پی صدر اور متعلقہ پولیس کے ہمراہ وقوعہ پہنچے، پولیس نے حملہ آوروں کو پکڑنے کیلئے تمام علاقے کی ناکہ بندی کی مگر کچھ ہاتھ نہ آیا، پمز ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کے بعد میت ورثاء کے حوالے کر دی گئی ہے، ڈی آئی جی آپریشن نے واقعہ کی تحقیقات کیلئے دو تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی ہیں جو قتل کے مختلف پہلوئوں کو دیکھیں گی اور یہ حقیقت معلوم کرینگی کہ آیا یہ قتل رہزنی کی واردات کے دوران ہوا یا پھر ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔
ٹیموں کی سربراہی ایس پی انویسٹی گیشن مصطفیٰ تنویر اور ایس پی صدر محمد عمر کرینگے اور ایک ہفتہ کے اندر رپورٹ پیش کرینگے، تحقیقات سے وابستہ لوگوں نے اس نمائندے کو بتایا ہے کہ وہ شوٹرزکو تلاش کرنے کیلئے حساس ایجنسیز سے ٹیکنیکل مدد لیں گے، تاہم ڈی آئی جی آپریشن نے کراچی کمپنی پولیس اسٹیشن کی کارکردگی کا نوٹس لیتے ہوئے ایس ایچ او کو کہا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کو بہتر کریں ورنہ انہیں تبدیل کردیا جائیگا۔