گزشتہ دنوں مجھے جیو نیوز کے ٹاک شو کیپٹل ٹاک میں شرکت کا موقع ملا، میں نے سینئر صحافی حامد میر سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے ریاست مدینہ پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا، اس حوالے سے میرا ایک ویڈیو کلپ بھی سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہوااور مثبت و منفی دونوں انداز کا فیڈبیک موصول ہوا، ایک طرف عوام کی اکثریت نے میرے بے باکانہ اور حقیقت پسندانہ اندازِ گفتگوکو سراہا تو دوسری طرف حکومتی حلقوں کی جانب سے اظہارِ ناراضی بھی کیا گیا۔بالخصوص ایک وزیر محترم نے تو میری ریاست مدینہ کی معلومات پر بھی سوال اٹھا دیا، مجھے افسوس ہے کہ میں نے جس سیاق و سباق میں ریاست مدینہ کا تذکرہ کیا تھا، اسے کچھ عناصر کی طرف سے درست انداز میں سمجھے بغیر میرے بیان کو پروپیگنڈے کیلئے وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا۔میں نے ایسی صورتحال میں مناسب سمجھا کہ اس کالم کے توسط سے ریاست مدینہ کے فلاحی ماڈل پر تفصیلی روشنی ڈالوں۔ میںسب سے پہلے یہ بھی آگاہ کرتا چلوں کہ بطور تاریخ کے طالب علم ریاست مدینہ پر مطالعہ میرا پسندیدہ ترین سبجیکٹ ہے، میں نے دنیا کی پہلی بے مثال فلاحی ریاست کے بارے میں جتنا پڑھا ہے، اس سے مجھے یقین ہے کہ اگر مدینہ ماڈل کو نافذ کرنے میں سنجیدگی دکھائی جائے توپاکستان کوترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے سے کوئی دنیاوی طاقت نہیں روک سکتی۔ میں نے گزشتہ سال بتاریخ 30اگست بعنوان ریاست مدینہ کی طرز پر نیا پاکستان!کو روزنامہ جنگ میں اپنے ہفتہ وار کالم میں تحریر کیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کا اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونا بے شک ایک عظیم کارنامہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا امتحان ہے کہ جس میں اصل کامیابی تب حاصل ہو گی جب پاکستان تحریک انصاف عوام کی امنگوں پر پورا اترے گی۔میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ1400برس قبل ریاست مدینہ میںترقی و خوشحالی کو امن سے منسلک کرتے ہوئے جو خصوصی اقدامات اٹھائے گئے، وہ ہمارے لئے مشعل راہ ہونے چاہئیں، مثلاََ انسانی تاریخ کی پہلی فلاحی ریاست مدینہ میں کمزور باشندوں کے حقوق کا تحفظ کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری قرار دیا گیا، ریاست مدینہ میں اعلیٰ اخلاق، بلند کردار، شائستگی، برداشت اور رواداری کو فروغ دیا گیا،گالم گلوچ سے اجتناب برتتے ہوئے اچھے الفاظ کے چنائو کے ساتھ احسن انداز گفتگو پر زور دیا گیا۔ میثاقِ مدینہ کے تحت تمام فریقین کو اپنے مذہبی عقائد پر کاربند رہتے ہوئے مکمل شہری حقوق فراہم کیے گئے، ریاست کا دفاع کرنا ہر مسلم اور غیرمسلم شہری پر فرض قرار دیا گیا، مدینہ بھر میں بسنے والے تمام باشندے مذہبی وابستگی سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے کے حلیف قرار پائے، ریاست مدینہ کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ دیگر اقوام سے پرامن تعلقات استوار کرنا تھا، مدینہ میں قانون کی نظر میں سب شہری برابر تھے اور کسی کی کوئی سفارش نہ مانی جاتی، ایک مرتبہ اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھنے والے مجرم کیلئے رعایت مانگی گئی تو فرمایا کہ اگر میری اپنی بیٹی بھی چوری کرتی تو سزا کی حقدار ہوتی، امورِ ریاست بخوبی سرانجام دینے کیلئے ساتھیوں سے مشاورت کا نظام قائم کیا گیا، حکومتی عہدوں کو ایک امانت قرار دیا گیا اور اس حوالے سے پالیسی بنائی گئی کہ امانت انہی لوگوں کے سپرد کی جائے جو سنبھالنے کے اہل ہوں، ترقی و خوشحالی کو یقینی بنانے کیلئے دنیاوی علوم سیکھنے کی حوصلہ افزائی کی گئی، جنگ بدر کے نتیجے میں قید ہونے والوں کو پیشکش کی گئی کہ وہ مدینہ کے رہنے والوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرکے آزادی حاصل کرسکتے ہیں،فتحِ مکہ کے موقع پر بدترین دشمنوں کو معاف کرکے سب کے دل جیت لیے، اسی طرح کاروباری اور دیگر دوطرفہ معاملات میں شفافیت کو یقینی بنایا گیا۔ ریاست مدینہ میں جب نصرانیوں کا ایک وفد ملاقات کیلئے آیا تو انہیں اپنے مذہبی عقائد کے مطابق مسجد نبوی میں عبادت کرنے کی اجازت دی گئی۔اسی طرح حضرت عمر فاروق جب بیت المقدس یروشلم پہنچے تو انکے کرسچین میزبانوں نے کلیسا میںا دائیگی نماز کی دعوت دی ، تاہم ریاست مدینہ کے حاکم نے مستقبل کے خدشات کو مدنظررکھتےہوئے معذرت کرلی کہ انکا یہ عمل مستقبل میںمحکوم غیرمسلم عوام کی عبادت گاہوں پر قبضے کا جوازنہ بن جائے۔یہ ہیں وہ ریاست مدینہ کی روشن تاریخ کے وہ بے مثال حقائق جن کاتذکرہ نہ صرف میں میڈیا پر زوروشور سے کرتا رہتا ہوں بلکہ پاکستان میں ریاست مدینہ کے عملی نفاذ کیلئے سرگرم کردار ادا کرنے کا خواہاں ہوں۔تاہم میں بخوبی جانتا ہوں کہ ریاست مدینہ ایک دن میں قائم نہیں ہوئی تھی، آج وزیراعظم عمران خان کی زیرقیادت پی ٹی آئی حکومت کو نت نئے بحرانوں کی بناء پر ریاست مدینہ کا ماڈل نافذ کرنے میں بے شمار مشکلات کا سامنا ہے،ہمیں اندرونی و بیرونی محاذ پر آئے دن کوئی نہ کوئی چیلنج درپیش رہتا ہے۔کچھ لوگ ملک بھر میں لنگرخانے کھولنے کو ریاست مدینہ کی جانب اہم قدم قرار دیتے ہیں لیکن میری نظر میں ہمیں ملک میں کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ کرکے غربت کو دور کرنا چاہیے تاکہ ریاست مدینہ کی طرح پاکستان میں بھی کوئی زکوۃ ،صدقہ خیرات لینے والا نہ مل سکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس مدینہ ریاست کی بات وزیر اعظم صاحب کرتے ہیں ، اسکو پاکستان میں نافذ کرنے کیلئے پہلا قدم حکومتی عہدوں کو قومی امانت سمجھ کر قابل لوگوں کے حوالے کرنا چاہیے، بالخصوص پرانے پاکستان کی طرح نئے پاکستان میں بھی حکومتی ادارہ قومی متروکہ وقف املاک بورڈ سربراہی کیلئے کسی قابل غیرمسلم پاکستانی سے محروم ہے، اسی طرح وزارت مذہبی ہم آہنگی کیلئے کوئی ایسا غیرمسلم پاکستانی سامنے آنا چاہیے جس کو نہ صرف تمام مذاہب کی تعلیمات پر عبور حاصل ہو بلکہ وہ عالمی برادری کے سامنے بھی پاکستان کا کیس احسن انداز سے پیش کرسکے۔میں اپنے کالم کا اختتام اس یقینی دہانی کے ساتھ کرنا چاہوں گا کہ مجھ سمیت تمام محب وطن غیرمسلم پاکستانی وطن عزیزمیں ریاست مدینہ کا ماڈل نافذ کرنے کیلئے حکومت وقت کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)