معروف اداکار سلیم معراج بے شمار ڈراموں اور فلموں میں اپنی منفرد اداکاری سے شائقین کےدل جیت چکے ہیں۔ چھوٹی اسکرین سے بڑی اسکرین کا کامیاب سفر کرنے والے سلیم معراج نے ڈراموں اور فلموں دونوں میں خوب رنگ جمائے۔ اداکاری کرتے ہوئے مختلف کرداروں میں ڈوب جاتے ہیں ۔ 1990ء کی دہائی میں چھوٹی اسکرین پر قدم رکھنے والے سلیم معراج نے اسٹیج پر بھی کام کیا ہے اور اسٹیج ہی کے ذریعے اپنی اداکاری کو جلا بخشی اور یہ اسٹیج اُن کی کامیابی کا آغاز تھا۔
مہرین جبار کی ہدایات میں اُن کا پہلا سیریل ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ تھا، جب کہ پہلا ڈراما پی ٹی وی پر ’’کالونی52‘‘ کیا۔ اس کے علاوہ اپنے دور کا شاہکار ڈرامہ ’’کرن کہانی‘‘ کے ری میک میں سلیم معراج نے صفدر کا اہم کردار ادا کیا تھا۔
ثانیہ سعید کے ساتھ طویل دورانیئے کا ڈراما’’کیوں‘‘آج بھی ناظرین کے ذہنوں پر نقش ہے۔ اس کے علاوہ ’’پل صراط، سرکار صاحب ،یار بے وفا ، اُم کلثوم، راستے دِل کے، خاندان شغلیہ، معصوب کی دل لگی، کھرچن، شاہ رُخ کی موت، میرے آنگن میں، ان داتا، قطب الدین ، برفی لڈو ،عشق نچایا ، اے ٹی زی، لو میں ٹوئسٹ ،کاش میں تیری بیٹی نہ ہوتی اور بہنیں ایسی بھی ہوتی ہیں ‘‘ اِن کے کریڈٹ پر ہیں۔ آج کل’’جیو ٹی وی‘‘ کے مقبول سیریل ’’ڈر خدا سے‘‘ میں سلیم معراج نے اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
جیو ہی سے نشر ہونے والا اُن کا ایک میگا سیریل ’’الف‘‘ اس وقت بھر پور شہرت حاصل کررہا ہے۔ سلیم معراج کی پہلی فلم ’’ذبح خانہ‘‘ تھی۔اس کے علاوہ اُنہوں نے دیگر فلموں ’’کتاکشا، لفنگے، عکس، پری، چلر فورس، رنگریزہ، جھول ، نامعلوم افراد ، لعل ، جیوفلمز کی ’’رام چند پاکستانی ‘‘ اور ’’ساون ‘‘ اور وہ’’ لال کبوتر‘‘ میں بھی اپنی فن صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔
آج کل اُن کی فلم ’’تلاش‘‘ ملک بھر کے سنیما گھروں کی زینت بنی ہوئی ہے جس میں اِن کی اداکاری کے خوب چرچے ہیں۔ سلیم معراج شہرت اور کامیابی کی بلندیوں پر ہیں یہ مقام اُنہوں نے کتنی محنت کی، اُنہیں کیا دُکھ درد جھیلنا پڑے ۔یہ اور اس کے علاوہ انہوں نے اپنی زندگی اور فن کے بارے میں ہمیں تفصیلی ملاقات میں کو کچھ بتایا ،ہمارے ہلکے پھلکے سوالات کے جواب میں کیا کہا ،آئیے آپ بھی اس گفتگو میں شامل ہوجائیں ۔
٭… سب سے پہلے تو ہمیں یہ بتائیں کہ فنی سفر کیسے شروع ہوا،یہ بھی بتائیں کہ اداکاری میں مختلف وارئٹیز کیسے لاتے ہیں؟
سلیم معراج…میں نے تھیٹر سے کام شروع کیا تھا، تھیٹر نے میرے کام کی صلاحیت کو خوب نکھارا، میں نے بھی بہت زیادہ محنت کی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہاں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں ٹیلنٹ اور کام سے کوئی غرض نہیں حالانکہ تھیٹر فن کاایک اچھا اداکار بنانے میں بڑی مدد فراہم کرتا ہے ،مگر کچھ فن کار اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتے۔بہرحال میں نے تو بھر پور اٹھا یا اور اپنے کام میں نکھار پیدا کیا ۔
دراصل اداکاری کامن سینس کا نام ہے، اس لئے میں بہت آسان طریقے سے کردار ادا کرلیتا ہوں، کرنے سے پہلے اس کے بارے میں سوچتا ہوں اور پھر کر گزرتا ہوں، ورسٹائل اداکاری کیلئے میں کردار کو اپنے اوپر سوار نہیں کرتا البتہ اپنی پرفارمنس سے کردار میں رنگ بھرنے کی بھر پور کوشش ضرور کرتا ہوں۔ مجھ میں کوئی خاص کوالٹی نہیں ہے ، رب العالمین نے مجھے یہ صلاحیت دی ہے کہ میں مختلف کرداروں میں ڈھل جاتا ہوں، اس لئے مجھے کردار پرفارم کرنے کیلئے بہت زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی جو کردار دیئے جاتے ہیں پھر میں ویسا ہی لگنے لگتا ہوں۔
٭…کیا آنے والے نئے اداکاروں میں بھی آپ کو یہ صلاحیت نظر آتی ہے؟
سلیم معراج…نئے اداکاروں کے بارے میں تو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اُنہوں نے اداکاری کرنی ہے یا صرف مشہور ہونا ہے ، معلوم نہیں وہ اس شعبے میں اداکاری کرنے آتے ہیں یا اپنے آپ کو مشہور کرانے۔ بات دراصل یہ ہے کہ شہرت اور اداکاری دو الگ چیزیں ہیں۔
مشہور ہونے کیلئے تو اور بھی بہت سارے شعبے ہیں اس وقت بہت سارے اداکار صرف اس لئے کام کررہے ہیں کہ اُنہیں مشہور ہونا ہے ۔ یہی اُن کا واحد مقصد لگتاہے ، وہ چاہتے ہیں کہ لوگ اُنہیں پہچان سکیں اور بس۔
٭… آپ کو دیکھ کر پرستاروں کا ردِعمل کیا ہوتا ہے؟
سلیم معراج…خوش ہوتے ہیں ،اُنہیں دیکھ کر لگتا ہے ،وہ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں، میرا احترام کرتےہیں اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اپنے کام میں بے ایمانی نہیں کرتا۔ یہ عزت پروردگار کی عنایت ہے میں صبح اُٹھ کر اللہ کا نام لیتا ہوں، سوتا ہوں تو اس کا نام لیتا ہوں، ہر وقت میرے ہونٹوں پر رب العالمین کا نام ہوتا ہے اور میں اپنے رب کا جتنا بھی شکر ادا کروں وہ کم ہے کیونکہ وہی ایک ذات ہے جس نے میری تمام خواہشات پوری کی ہیں۔
٭…اداکار نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟
سلیم معراج…اگر میں اداکار نہ ہوتا تو ایک معمولی سی ملازمت ،عام سی زندگی گزار رہا ہوتا۔ویسے بچپن سے اداکار بننے کی میری کوئی خواہش نہیں تھی، گریجویشن تک کوئی ایکٹنگ نہیں کی، نہ ہی مجھے اسکرین پر آنے کا شوق تھا۔ اتفاقاً ثانیہ سعید اور شاہد شفاعت سے ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے تھیٹر کی آفر کردی۔
ملاقات ایک فنکشن میں ہوئی تھی۔ ثانیہ سعید جو اس وقت بہت مشہور تھیں اُن کا مجھے آفر دینا ہی بڑی بات تھی،پھر ایک دِن اُنہوں نے میرا آڈیشن لیا اور میں کامیاب ہوگیا۔ پھر اوپر والے نے ایسا کرم کیا کہ آج تک اداکاری ہی کررہا ہوں۔ اس کے لیے کوئی خاص جدوجہد نہیں کرنا پڑی اور فیملی کی بھی بھر پور سپورٹ تھی ۔ ذریعہ معاش کی بھی کوئی فکر نہیں تھی اس لئے ساری توجہ اپنے کام پر ہی دی۔
٭…کبھی کمرشل ایکٹر بننے کا سوچا تھا ؟
سلیم معراج…جب تک تھیٹر میں کام کرتا تھا اس وقت تک ذہن میں کمرشل ایکٹر بننے کا سوچا بھی نہیں تھا۔ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اچھی اور بری اداکاری میں کیا فرق ہوتا ہے، البتہ پرفارمنس کے بعد جب لوگ داد دیتے تو خوش ہوتا تھا۔میری حوصلہ افزائی ہوتی تھی۔ عوام کی تالیوں کی گونج سے سمجھ جاتا تھا کہ اِنہیں میرا کام پسند آرہا ہے۔
٭…تھیٹر سے ٹیلی ویژن پر آنے میں کوئی گھبراہٹ نہیں ہوئی؟
سلیم معراج…بالکل نہیں!جب میں نے ٹیلی ویژن کیلئے کام شروع کیا تو لوگوں نے یہاں بھی مجھے بہت پسند کیا۔میرے کام کی تعریف کی۔ مہرین جبار میری پہلی ہدایت کارہ تھیں ، اُن کے ساتھ میں نے سیریل ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ میںکام کیا۔ میرا پہلا ڈراما مہرین جبار اور دوسرا شفاعت کے ساتھ تھا۔ تیسرا ’’کرن کہانی‘‘ کا ری میک تھا، جس کی ہدایتکارہ بھی مہرین جبار تھیں۔
٭…کردار میں ڈھلنے کیلئے شروع میں تو ضرور مشکل ہوئی ہوگی؟
سلیم معراج…شروع میں تو ہر کردار کرنا مشکل تھا، میں نے ایک ڈراما کیا تھا ،کاشف نثار کے ساتھ، آمنہ مفتی کا اسکرپٹ تھا۔ پھر کاشف کے ساتھ ایک اور ڈراما’’سناٹا‘‘ کیا۔ ’’جیو ٹی وی‘‘ کا ایک سیریل تھا ’’کاش میں تیری بیٹی نہ ہوتی‘‘ اس ڈرامے کیلئے مجھے ذہنی اور جسمانی طور پر بہت سخت محنت کرنا پڑی۔ سیریل کے ہدایتکار علی رضا اُسامہ تھے اُن کے ساتھ کام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کام نہیں بلکہ ’’مزدوری‘‘ کررہے ہیں، وہ اداکار سے بھر پور کام لیتے ہیں، لیکن وہ سیریل بھی بہت شاندار اور درد بھرا تھا۔
میں سب کو یہی کہتا ہوں کہ مجھ سے آپ جتنی بھی محنت کرالیں میں کروں گا ، کیونکہ جب تک آرٹسٹ کردار پر محنت نہیں کرے گا تو نہ ہی اُسے خود اپنے کام میں مزہ آئے گا اور نہ ہی ناظرین کو۔
٭…کوئی خاص کردار کرنے کی خواہش ہے؟
سلیم معراج…کوئی کردار ایسا نہیں ہے جس کی خواہش نہ ہو، چھوٹے سے بڑے تک ہر کردار کرنا چاہتا ہوں، ویسے میں تین بار اسکرپٹ پڑھتا ہوں تو خود ہی اس کردار میں اپنے لئے دلچسپی نکال لیتا ہوں۔ کوشش کرتا ہوں کہ جس طرح کا کردار مجھے دیا گیا ہے اس کی چیزیں خود ہی تلاش کرلوں ، جب میں ڈرامے کی حامی بھر تا ہوں تو پھر میں اسی پر پوری توجہ مرکوز کردیتا ہوں ۔میرے لئے سب سے زیادہ اہمیت اُس وقت ڈرامے کی ہوتی ہے۔
٭…کسی کردار کیلئے باقاعدہ ریسرچ نہیں کرتے ؟
سلیم معراج…ہر سین اچھی طرح سوچ سمجھ کر پرفارم کرتا ہوں، یہ نہیں سوچتا کہ اس کردار میں یا کسی جگہ Pause دوں گا، البتہ جیو کے سیریل ’’کاش میں تیری بیٹی نہ ہوتی‘‘ میں مجھے کافی محنت اور کچھ ریسرچ بھی کرنا پڑی تھی لیکن باقی کرداروں تو عام زندگی والا ہی ہوتے ہیں۔
٭…کوئی کردار کرتے وقت یا ڈراما دیکھتے ہوئے روئے ؟
سلیم معراج…کوئی بھی جذباتی فلم دیکھ کر رونا آجاتا ہے اور یہ میرے دِل کی عکاسی ہوتی ہے کہ کوئی بھی جذباتی سین مجھے اچھی طرح رُلا دیتا ہے۔
٭…کبھی اُداس ہوئے؟
سلیم معراج…میری اُداسی کا علم صرف بیگم کو ہی محسوس ہوتا ہے۔
٭…اداکاری کی دُنیا سے نکل کر حقیقی زندگی میں کب خوش ہوئے؟
سلیم معراج…کام ہی میری سب سے بڑی خوشی ہے۔صحت ، تندرستی اور خوش حال کی دُعا ئیں مانگتا رہتا ہوں، اگر کسی کو ڈانٹ دوں یا غصہ آجائے تو پھر فوراً ہی افسوس کرنے لگتا ہوں۔ لیکن اب اسے بھی کافی کنٹرول کر لیا ہے، کسی کا دِل نہیں توڑا۔ اس لئے حقیقی زندگی میں ہر وقت خوش ہی رہتا ہوں۔
٭…زیادہ پرستار خواتین ہیں یا مرد ؟
سلیم معراج…سب ہی ہیں سب ہی محبت کرتے ہیں، لیکن میری پہلی محبت ’’بیگم ‘‘ہیں، لڑکیوں کے ساتھ پڑھنے کا شوق تھا، زندگی میں کبھی کسی کا دِل نہیں توڑا، کبھی محبت کا اظہار نہیں کیا، نہ ہی ایسا موقع آیا کہ کوئی مجھ پر مر مٹا ہو۔ ہاں! زندگی میں ایسے مواقع ضرور آئے ہیں جب میں نے بہت جھوٹ بولے ،البتہ اپنے کام کے لیے کبھی بہانہ نہیں بنایا۔
٭…غصہ کن باتوں پر آتا ہے؟
سلیم معراج…کوئی میرے سامنے جھوٹ بولے تو فوراً غصہ آجاتا ہے۔ اکثر مجھے معلوم بھی ہوتا ہے کہ سامنے والا جھوٹ بول رہا ہے لیکن میں اس کا اظہار نہیں کرتا لیکن اسے دیکھ کر غصہ بڑھتا رہتا ہے۔
٭…بیگم کی سب سے اچھی بات کیا لگتی ہے؟
سلیم معراج…اُن کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ میری بیگم ہیں۔ اس کے علاوہ بچے میری جان ہیں اُن کی میں ہر خواہش پوری کرتا ہوں۔
٭…کبھی کسی سے دھوکا کھایاہے؟
سلیم معراج…اوپر والے کا کرم ہے کہ دھوکا کبھی دیا نہیں کھایا ضرور ہے ۔ لوگوں نے مجھ سے پیسے بھی بہت لوٹے ، یہ بھی بتادوں کہ ہمارے معاشرے میں اُدھار مشکل سے ہی واپس ملتا ہے،بس اُدھار دینے کے بعد دھوکے بہت ملے۔
٭…دوست زیادہ ہیں یا کم ؟
سلیم معراج…کوشش کرتا ہوں مخلص دوست بنائوں لیکن ایک دور ایسا بھی تھا جب مجھے اچھے دوست نہیں ملے ، بچپن سے لڑکپن تک دوستوں کے ساتھ بہت شرارتیں کی ہیں۔ کم دوست ہیں لیکن سب مخلص اور دکھ درد کے ساتھی ہیں ۔
٭…خواب دیکھتے ہیں ؟
سلیم معراج…ہاں اور لوگوں کی طرح میں بھی خواب دیکھتا ہوں لیکن خوابوں کی دنیا میں رہتا نہیں۔ حقیقت پسند ہوں اس لئے جو ہوتا ہے اسے قبول کرتا ہوں۔ زندگی میں خود کو متوازن رکھتا ہوں۔ اداکاری کی دُنیا اور معاشرے میں میرا کردار الگ ہے۔
٭…گھر والے اچھے کردار کو سراہتے ہیں؟
سلیم معراج…ایک فلم تھی ’’رام چند پاکستانی‘‘ اس میں میرے کردار کو دیکھ کر میرے والد بہت خوش ہوئے تھے۔ ابا کے ساتھ بہت زیادہ دوستی رہی۔ لیکن آج اپنی کامیابی اور لوگوں کی محبت دیکھ کر والدہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہوں۔
٭… بہن بھائی اور بچوں کے بارے میں کچھ بتائیں؟
سلیم معراج…تین بچے ہیں، ایک بچی کا نام اُشنا ہے، دو جڑواں بچے ہیں ، اُن کا نام حسن اور حسین ہے۔ ہم چھ بھائی اور دوبہنیں ہیں ایک بہن کا انتقال ہوچکا ہے۔ بچپن میں ہم سب ہی شرارتی تھے، کھیلنا کودنا اور پڑھنے کا شوق تو بالکل نہیں تھا، میٹرک تک یہی صورت حال رہی۔
میری بڑی بہن سخت مزاج تھیں اُنہوں نے ہمارا کیریئر بنانے میں میری ماں کی طرح مدد کی ۔ امی کے انتقال کے بعد بڑی بہن نے ماں بن کر ہی پالا ۔ یہ اُن کی تربیت کا نتیجہ ہے کہ مجھ میں کوئی اکڑ اور غرور نہیں ، کام سے محبت کرتا ہوں لیکن یہ ضرور ہے کہ ٹیڑھے لوگوں کے ساتھ ٹیڑھا بننا پڑتا ہے۔
٭…جیب خرچ ملتا تھا؟
سلیم معراج…انتہائی متوسط طبقے سے تعلق ہے، کمبائنڈ فیملی میں رہتے تھے، اس دور میں ہمیں جیب خرچ کیلئے 5 یا 6 روپے ملتے تھے۔ مجھے یاد ہے میٹرک میں اسکول 5 روپے لے کر جاتا تھا ، اس کا گولا گنڈا خرید تا تھا۔اُس وقت اُن پانچ ،چھ روپوں کی بھی بڑی اہمیت ہوتی تھی۔
٭…اپنی نئی فلم ’’تلاش‘‘ کے بارے میں کچھ بتائیں؟
سلیم معراج…فلم کی کہانی ندیم اسد نے لکھی ہے ۔ اس کا موضوع ’’غذائی قلت‘‘ ہے۔در اصل بات یہ ہے کہ اگر ہم کسی خشک موضوع پر ناظرین کو فلم کے ذریعے پیغام دینا چاہتے ہیں تو لوگ اُس سے بہت بے زار ہوجاتے ہیں۔ لیکن ذیشان خان نے یہ فلم بناتے ہوئے اس بات کا سب سے زیادہ خیال رکھا ہے کہ اگر ہمیں لوگوں تک کوئی پیغام پہنچانا ہے تو اس میں انٹرٹینمنٹ کا پہلو بھی لازمی ہونا چاہئے۔
یہ فلم اس انداز سے تخلیق کی گئی ہے کہ اس میں رومانس، ایکشن، تھرل ، اسکرپٹ اور کامیڈی بہت زبردست ہے۔ فلم کی کہانی بھی بہت عمدہ ہے ۔ناظرین اس کے جملے سن کر ہنس ہنس کرلوٹ پوٹ ہو جائیں گے ، تفریح بھی ہے۔ لوگوں کو بہت مزہ آئے گا۔ فلم کا ایکشن بھی زبردست ہے ، اس کے ایکشن ڈائریکٹر شاہ جی ہیں جنہوں نے ’’طیفا اِن ٹربل‘‘ میں ایکشن ڈائریکٹ کیا تھا۔ اس کے علاوہ مصطفی قریشی نے بہت اچھا کردار ادا کیا ہے۔ ٹیپو بھی اس فلم میں شامل ہیں جنہوں نے بہت اعلیٰ پرفارم کیا ہے ۔
٭…مصطفی قریشی کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟
سلیم معراج…بہت اچھا رہا بہت مزہ آیا۔ اُن کے ساتھ میرے سین تو کم ہیں لیکن اُن سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ مجھے حیرت ہوتی تھی کہ مصطفی صاحب سارا دِن ایک ہی کرسی پر بیٹھے رہتے تھے اور اُن کے ماتھے پر ذرا بھی شکن نہیں آتی تھی، حالانکہ اگر وہ ایک بار کہہ دیں کہ بھئی! میرا سین پہلے کر دو تو سب اُٹھ کر ایک طرف ہو جائیں لیکن اُنہوں نے اپنے عمل سے بتایا کہ تحمل سے کس طرح کام کیا جاتا ہے۔
میں نے اُن سے اس بارے میں سوال بھی کیا تھا لیکن اُنہوں نے کہا کہ اس انڈسٹری میں ایسا ہی ہوتا ہے کبھی تو آپ سارا دِن کام میں لگے رہتے ہیں اور کبھی سارا دِن ایسے ہی ایک کرسی پر بیٹھے رہتے ہیں۔ فلم کی موسیقی انتہائی شاندار ہے، ہماری فلموں میں شاز و نادر ہی سندھی کلچر نظر آتا ہے ۔ اس فلم میں سندھی گیت شامل کیا گیا ہے۔ اس کی کہانی میں سندھ کا وڈیرہ شاہی نظام بھی نظر آئے گا۔
٭…فلم کا نام ’’تلاش‘‘ کیوں رکھا گیا؟
سلیم معراج…فلم میں ہم سچ ، محبت اور ایک خوبصورت لڑکی تلاش کررہے ہیں۔
٭…شوٹنگ کہاں کہاں ہوئی ؟
سلیم معراج…لاڑکانہ، عمر کوٹ، مٹھی، مٹیاری، گجو اور حیدرآباد میں کی گئی ہے لیکن فلم کی پروڈکشن بہت اچھی ہے اور ہدایتکار ذیشان کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ کیونکہ جب کھانا، پینا رہائش اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں تو آرٹسٹ بھی ہشاش بشاش ہوکر کام کرتے ہیں۔
٭…آپ تو پہلے بھی اندرون سندھ کام کرچکے ہیں؟
سلیم معراج…جی بالکل! میں نے اندرون سندھ بے تحاشہ کام کیا ہے، وہاں میں نے سندھ تھیٹر بھی کیا ، اس کے علاوہ ایک فلم ’’رام چند پاکستانی‘‘ میں بھی اندرون سندھ جاکر بہت کام کیا تھا۔
٭…جیو کا سیریل ’’الف‘‘ بھی فلم کی طرح شوٹ ہوا ہے،اس بارے کیا کہیں گے؟
سلیم معراج…سیریل ’’الف‘‘ کے بارے میں تو میں یہی کہوں گا کہ اس میںفلموں سے بھی زیادہ محنت سے شوٹ کیے گئےہیں، فلم سے زیادہ وقت اور بجٹ اس ڈرامے پر لگا ہے، عمیرہ احمد کا ناول اور پھر حسیب کی ڈائریکشن، آپ یقین کریں کہ پرفارمنس ہو، اسکرپٹ ہو یا لوکشن، اس سیریل میں کسی بھی چیز پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا گیا۔
٭…ڈراما یا فلم زیادہ بہتر کہاں پرفارم کرتے ہیں؟
سلیم معراج…میرے سامنے کیمرہ ہونا چاہئے اس کے بعد وہ ڈراما ہو یا فلم، بحیثیت اداکار اچھی پرفارمنس دینے کی کوشش کرتا ہوں۔
٭…کیمرے کے سامنے یا سامعین کے درمیان، کہاں زیادہ مزہ آتا ہے؟
سلیم معراج…سامعین سامنے ہو تو پھر کیا ہی بات ہے، اُن کے سامنے پرفارم کرنے کا الگ ہی مزہ ہے۔ درحقیقت میں تھیٹر کی پیداوار ہوں، میں نے ساری زندگی تھیٹر ہی کیا ہے، لیکن 2012ء سے نہیں کررہا، کیونکہ ایک تو وقت کم ملتا ہے اس کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزیں ہیں، دو دو ڈھائی ڈھائی ماہ کی کمنٹمنٹ چل رہی ہیں ، بہرحال تھیٹر میں ضرور کروں گا اور تھیٹر پر اپنی ذمہ داری دوبارہ سے پوری ا دا کروں گا۔
٭…آج کل ٹی وی کا ہر اداکار فلم میں کام کیوں کرنا چاہتا ہے؟
سلیم معراج…ٹیلی ویژن پر مقبول ہونے والے ماضی کے اداکار بھی فلمیں کرنے کے لیے لاہور جایا کرتے تھے۔ بابرعلی، ریمبو وغیرہ ٹی وی سے فلموں کی طرف گئے، پہلے بھی اداکار فلموں میں کام کرنا چاہتے تھے اور آج کل کے آرٹسٹ بھی فلموں میں یہی چاہتے ہیں، لیکن کئی اداکار ایسے بھی دیکھے ہیں جو فلم سائن کے بعد اس کا اظہار سوشل میڈیا پر پوسٹس لگا کر کرتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ کو فلموں میں کام مل گیا ہے۔
فوکس صرف کام پر کریں۔ اگر آپ کو فلموں یا ڈراموں میں کام مل گیا ہے تو یہ آپ کا پروفیشن ہے اِسے اِسی طریقے سے ڈیل کرنا چاہئے بہرحال جو لوگ اپنا اظہار اس طریقے سوشل میڈیا پر کرتے ہیں تو مجھے کچھ عجیب لگتا ہے۔
٭…سوشل میڈیا پر پرستاروں سے خوشی کا اظہار کرنا غلط ہے؟
سلیم معراج…سوشل میڈیا پر اپنا بورڈنگ کارڈ پوسٹ کرنا کہ اب میں لاہور جارہا ہوں، اب میں فلاں جگہ پہنچ گیا ہوں، اب میں یہ کھا پی رہا ہوں یہ سب چیزیں ذاتی طور پر مجھے تو عجیب لگتی ہیں۔ لیکن اگر کوئی ٹک ٹاک اسٹار ہے ، وہ اس سے پیسے بھی کماتا ہے تو ایسے آرٹسٹوں کی میں عزت کرتا ہوں، اگر کوئی سوشل میڈیا پر اسٹار بن کر شوبز میں آرہا ہے تو یہ بھی اچھی بات ہے۔ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ لوگ ایک شخص سے ملنے کافی دور دور سے آئے، میں نے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ یہ ٹک ٹاک اسٹار ہے تو پھر میں نے بھی اسے عزت دی اور دینی بھی چاہئے۔
بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر میرے اکائونٹ ہیں، میں خود بھی سوشل میڈیا پر کافی سرگرم ہوں ۔ سوشل میڈیا کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں لیکن میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ایک پوسٹ جو مجھے بہت اچھی لگ رہی ہےاور سامنے والے کو بری لگے تو میری کوشش ہوگی کہ میں اسے پوسٹ کرکے دوسروں کی دِل آزاری نہ کروں۔
یقین کیجئے میری 11 سالہ بیٹی تقریباً روز ہی مجھے فون کرکے کہتی ہے کہ آپ روزانہ ایک پکچر پوسٹ کریں۔ کہنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ سوشل میڈیا پر جو لوگ سرگرم ہیں مجھے اُن سے کوئی اختلاف نہیں لیکن جس طرح سب کی الگ الگ رائے ہوتی ہے اس حوالے سے میری بھی ایک رائے ہے جس کا اظہار میں نے کر دیا ۔
٭…کیا وجہ ہے کہ آپ ہر دوسری فلم میں نظر آتے ہیں؟
سلیم معراج…میری پہلی ترجیح اچھا اسکرپٹ ہے، اگر مجھے اچھا اسکرپٹ ملا ہے تو میں اُسے صرف اس لئے مسترد نہیں کرسکتا کہ میں دیگر فلموں میں بھی کام کررہا ہوں۔ چند دِن بعد آپ دیکھیں گے کہ میں کئی اور فلموں میں بھی نظر آئوں گا۔
٭…پاکستان میں فلموں کا مستقبل کیا ہے؟
سلیم معراج…پاکستان میں بے شمار فلمیں بن رہی ہیں، مختلف رائٹرز اور ہدایت کار فلم سازی میں نظر آرہے ہیں اور یہ سب اپنے تجربے، مہارت اور دلچسپی کے ساتھ فلمیں بنا رہے ہیں اِن میں سے اکثر فلمیں کامیاب ہوئی ہیں۔ لوگوں نے اِن فلموں کو پسند کیا ۔
فلم کا کونٹینٹ اچھا ہونا ضروری ہے۔ ہم جس فلم میں کام کرتے ہیں ، دُعا یہی ہوتی ہے کہ یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہو۔ سماجی مسائل پر بننے والی فلموں میں کام کرنا میری ترجیح ہے ،کیونکہ فلم سبق آموز ہوتی ہیں، سماجی مسائل کی نشاندہی کرتی ہے، ہماری لوگوں سے اپیل ہے کہ وہ پاکستانی فلموں کی حوصلہ افزائی کریں۔