• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تبدیلی کا کوئی بھید بھائو نہیں ہوتا۔ تبدیلی دکھتی ہے۔ تبدیلی محسوس ہوتی ہے باتوں سے اور بتانے سے تبدیلی نہیں آتی۔ جو دکھائی نہ دے اور محسوس نہ ہو، وہ تبدیلی نہیں ہوتی۔ 

ایسی تبدیلی کے دعوے کو عام فہم اردو میں چکر کہتے ہیں۔ آپ ایک طرف اشارا کرتے ہوئے کسی کو یہ نہیں بتا سکتے کہ میاں وہ دیکھو غور سے دیکھو۔ سامنے سے تبدیلی چلی آرہی ہے۔ وہ شخص بتائی ہوئی سمت کی طرف دیکھتے ہوئے آپ سے کہے گا: بھائی بائولے ہوگئے ہو کیا؟ غور سے دیکھو، سامنے سے تبدیلی نہیں۔ بکری چلی آرہی ہے…

آپ اگر تبدیلی کو بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں، تب درحقیقت آپ دنیا کو چکر دینا چاہتے ہیں۔ آپ دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ یہاں سب کچھ ساکت تھا۔ سب کچھ منجمد تھا۔ سماجی اور ثقافتی رسم و رواج وہی تھے جو ہزاروں برس پہلے تھے۔ آج تک لوگ غاروں میں رہتے ہیں۔ 

وہ گھر نہیں بناتے۔ آپ چاہے جتنی چورن چٹنی کھائیں، یہ باتیں ہضم نہیں ہوتیں۔ تبدیلی جو دکھائی دے وہ تبدیلی ہوتی ہے۔ تبدیلی تمام محرکات کا محور ہے۔ یاد ہے آپ کو کہ آپ کبھی نوزائیدہ ہوتے تھے؟ آپ کو یاد نہیں ہوگا۔ آپ نے اپنے بڑے بوڑھوں سے سنا ہوگا کہ آپ کبھی نوزائیدہ تھے۔ آپ اپنی تبدیلی اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ آپ رفتہ رفتہ بڑے ہونے لگے۔ 

اس تبدیلی کو آپ قدرتی عمل کا نام دے کر ٹال نہیں سکتے۔ ہم سب تمام عمر تبدیلی کے عمل سے گزرتے رہتے ہیں۔ بچپن، لڑکپن، نوجوانی، جوانی، ادھیڑ عمر، بڑھاپا اور روانگی ایک انسان میں آنے والی تبدیلیوں کی علامتیں ہیں۔ ہماری سوچ میں تبدیلی آتی ہے۔ ہمارے رویوں میں تبدیلی آتی ہے۔ ہمارے رشتوں میں تبدیلی آتی ہے۔ 

اگر آپ کی سوچ میں تبدیلی نہیں آتی تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اپنے ذہن کے دروازے، کھڑکیاں اور روشن دان بند کر دیے ہیں۔ آپ مطمئن رہتے ہیں کہ آج تک آپ کو جو بتایا گیا ہے وہ حرف آخر ہے۔ سوچ سمجھ کے سلسلے ختم ہوئے۔ اب آپ کو سوچنے سمجھنے اور بوجھنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جب آپ سوچتے نہیں تب آپ کو پتا نہیں چلتا کہ آپ کہاں ہیں، کیوں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ 

ایسے میں کسی قسم کی تبدیلی، منفی یا مثبت آپ کے قریب سے نہیں گزرتی اور اگر کبھی گزرتی ہیں تو آپ کو پیچھے چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔

آپ ذرا غور سے پیپل کے اس پیڑ کی طرف دیکھیے۔ سر سبز اور گھنا درخت ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ درخت ازل سے اسی جگہ موجود تھا اور ابد تک اسی جگہ ٹکا رہے گا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلی کو قبول نہیں کرتے۔ 

آپ کسی صورت قبول نہیں کرتے کہ آج سے ساٹھ ستر برس پہلے کسی نے بیج بویا تھا۔ بیج سے پودے نے جنم لیا تھا اور پھر مرحلہ وار، وقت کے ساتھ پودا درخت میں بدلنے لگا تھا۔ تبدیلی دکھتی ہے۔ تبدیلی محسوس ہوتی ہے۔ لڑکپن میں قدم رکھنے کے بعد ایک اہم تبدیلی آپ میں یہ بھی آتی ہے کہ آپ کے چہرے پر مونچھیں آنے لگتی ہیں۔ آپ کی آواز بدلنے لگتی ہے۔ یہ ایسی تبدیلیاں ہیں جو دکھتی ہیں، جو محسوس ہوتی ہیں۔ 

تبدیلی کو ہوا آپ تب بناتے ہیں جب آپ تبدیلی کے نام پر سیاست کرتے ہیں۔ ایک آدمی مسکرانا بھول بیٹھا ہے۔ آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ اس نامراد شخص کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی لے آئے ہیں۔ آپ کا دعویٰ اس وقت تک قابلِ قبول نہیں ہوتا جب تک نامراد شخص کے چہرے پر مسکراہٹ دکھائی نہیں دیتی۔

رات کا پہلا پہر ہے۔ اپنا بریف کیس کھونے کے بعد آپ پریشان اور افسردہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ بریف کیس میں آپ کے اہم کاغذات تھے۔ آپ کو بار بار یاد پڑتا ہے کہ پچھلی شام آخری بار آپ نے ٹیکسی میں سفر کیا تھا، بریف کیس آپ نے اسی ٹیکسی میں بھولے سے چھوڑ دیا تھا۔ 

آپ کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ آپ کو کیا کرنا چاہئے۔ ایک سوچ آپ کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے: کاش میں نے توجہ دی ہوتی تو وہ اہم بریف کیس میں ٹیکسی میں کبھی نہیں بھولتا۔ ایسے میں دروازے پر کسی نے دستک دی ہے۔ آپ بادل نخواستہ دروازہ کھولتے ہیں۔ 

سامنے پولیس کا ایک افسر کھڑا ہوا ہے۔ اس کے ہاتھ میں آپ کا بریف کیس ہے۔ وہ آپ سے آپ کا نام پوچھتا ہے۔ تصدیق کرنے کے بعد کہتا ہے: ایک ٹیکسی ڈرائیور یہ بریف کیس تھانے لے آیا تھا۔ آپ اترتے ہوئے ٹیکسی میں بھول گئے تھے۔ ہم نے احتیاطً کھول کر دیکھا۔ آپ کی اہم دستاویز اور ایک لاکھ کیش پڑا ہوا تھا۔ کاغذات پر آپ کا نام اور پتا لکھا ہوا تھا۔ 

پولیس نے فرض جانا کہ بریف کیس ہاتھوں ہاتھ آپ تک پہنچایا جائے، آپ حیران اور تقریباً حواس باختہ رہ جاتے ہیں۔ جس معاشرے میں بریف کیس چھینے جاتے ہوں اس معاشرے میں حفاظت کے ساتھ بریف کیس کا مل جانا بہت بڑی تبدیلی کی تصدیق ہے مگر تبدیلی خوابوں میں نہیں آتی۔ 

خوابوں میں آئی ہوئی تبدیلی میں ہم بچوں کو ہوٹلوں کے باہر بچے کھچے کھانے سے دو نوالے ڈھونڈتے ہوئے نہیں دیکھتے۔ وہ ہشاس بشاش بچے اسکول جاتے ہیں اور نئی قوم کی تشکیل کی نوید سناتے ہیں مگر تعبیروں میں ایسا نہیں ہوتا۔ بچے کچرے کے ڈھیروں میں روزی روٹی تلاش کرتے ہیں اور وہیں پر سو جاتے ہیں۔

تازہ ترین