• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  مرتب : محمد ہمایوں ظفر

آج سے کوئی ساٹھ پینسٹھ سال پہلے کی بات ہے۔ اس وقت ہم گوجر خان میں رہتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے فوری بعد میرے والد کو محکمہ بحالیات میں ملازمت مل گئی تھی۔ وہ بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے مہاجروں کی آبادکاری کا کام کرتے تھے۔ انہوں نے ایک بزرگ، ’’کانواں والی سرکار‘‘ کو بھی نالہ کانسی روڈ پر ایک مکان الاٹ کیا۔ وہ درویش صفت انسان تھے، لوگ ان کے گرویدہ اور مُرید تھے، وہ ہر وقت عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے۔ ان کو اللہ کی طرف سے بزرگی ملی تھی۔ 

ہم نے انہیں کبھی کھانا وغیرہ کھاتے نہیں دیکھا، صرف چائے، دودھ اور پانی پر گزارہ کرتے تھے۔ میرے والد بھی اُن کی شخصیت سے کافی مرعوب تھے۔ وہ کبھی کبھی ہمیں بھی ان کے آستانے پر لےجاتے۔ میرے شریف النفس والد کی سادہ طبیعت کی وجہ سے پیر صاحب انہیں بہت پسند کرتے تھے۔ ہم جب ان کے پاس جاتے، تو وہ نظرِبد کا دَم کرتے، چائے پلاتے اور تنور سے راکھ نکال کر چٹاتے، جو بالکل سفید اور نمکین ہوتی تھی۔ اسی تنور پر وہ اپنی چائے بناتے اور کوئلوں کی راکھ سب کو چٹاتے۔ اللہ نے اس میں شفا رکھی تھی، وہ راکھ صرف انگلی سے چٹاتے تھے۔

اب میں اصل واقعے کی طرف آتی ہوں۔ ہمارے گھر کے کھلے برآمدے میں کچن تھا۔ساتھ ہی ایک بڑی کارنس تھی، جس پر مسالوں کے ڈبے رکھے جاتےتھے۔ ہماری والدہ انتہائی سادہ طبیعت کی صفائی پسند خاتون تھیں۔ وہ گھر کے سارے کام خود ہی کرتی تھیں۔ سادہ زمانہ تھا، اُس زمانے میں ایک روپے کا چاندی کا سکّہ چلتا تھا۔ ہماری والدہ اکثر سودا سلف سے بچے ہوئے پیسے اس کارنس پر رکھ دیتی تھیں۔ 

ایک دن وہ کچن میں مصروف تھیں کہ کہیں سے ایک کوّا اُڑتا ہوا آیا اور چاندی کا سکّہ چونچ میں دبا کر اُڑتا بنا۔ امّی چلّاتی ہی رہ گئیں، کیوں کہ اُس زمانے میں ایک روپے کی بھی بہت اہمیت تھی۔ والد صاحب آفس سے آئے، تو امّی نے اس واقعے کا ا ُن سے ذکر کیا اور کہا کہ آپ کانواں والی سرکار کے پاس جائیں اور انہیں بتائیں کہ کوّا ہمارے حق حلال کی کمائی لے اُڑا ہے۔ دوسرے روز والد صاحب کانواں والی سرکار کے ہاں گئے اور انہیں یہ واقعہ بتایا کہ کس طرح کوّا چاندی کا سکّہ لے اُڑا، تو بزرگ مسکرانے لگے ، مگر کہا کچھ نہیں۔ بات آئی گئی ہوگئی، مگر اگلے ہی روز حیرت انگیز طور پر ایک کوّا اُسی طرح اُڑتا ہوا آیا، اور اپنی چونچ میں دبا چاندی کا سکّہ عین امّی کے سامنے پھینک کر اُڑگیا۔ 

یہ دیکھ کر امّی پہلے تو ڈریں، پھر مُسکرا کے روپیہ اٹھا لیا۔ ابّو جب گھر آئے اور انہیں بتایا، تو وہ بھی بہت حیران ہوئے اور کہا کہ میں نے ’’کانواں والی سرکار‘‘ سے اس کا ذکر کیا تھا۔ واقعی یہ ایک کرامت ہی ہے۔‘‘ تب ہی تو اس واقعے کو اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود بھی میں آج تک بھلا نہیں پائی۔ (عذرا محمود،شہید آفیسرز کالونی، سبزہ زار،راول پنڈی کینٹ)

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کےقلم کار

٭عورتوں کی تعلیم (صدف آفاق) ٭(زندگی پر مثبت اثر ڈالنے والا واقعہ (محمد نوید شیخ، لاہور) مولوی صاحب اور جن کا بچّہ +انسان اور جنّات ایک ہی گھر میں (عظمیٰ ناز، کراچی) ٭ پاکستان کے لیے قربانیاں (عذرا محمود (شہید آفیسرز کالونی، راول پنڈی کینٹ) ٭یاد آتا ہے مقدر جب بھی (ممتاز سلطانہ، الرحیم شاپنگ سینٹر، پولیس لائن، حیدر آباد)٭ قسمت کی لکیریں (شاہدہ ناصر، کراچی) ٭اپنی کچھ اسٹوری (فیضان مہدی،کرن ٹاور، شادمان ٹائون ، کراچی

تازہ ترین