• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صاحب اس بستی کو چھوڑ دیں یہاں آپ کو کچھ نہیں ملےگا، ان لوگوں کو تو پہلے ہی بہت بار لوٹا جا چکا ہے، نہ ان کے پاس روزگار بچا ہے، نہ ہی کاروبار، نہ ان کے پاس اسکول ہیں نہ ہی تعلیم، بارشیں نہ ہونے کے سبب کھیتوں میں خشک سالی ہے، غرض ان غریبوں سے نوسر بازی میں بھی اپنا ہی نقصان ہوگا۔ میں باس کو سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کہ غریبستان نامی اس بستی سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوگا لیکن باس بضد تھے کہ آئیں ہیں کچھ تو لیکر ہی جائیں گے۔ پھر میں نے بھی باس کی اطاعت کو افضل جانا اور باس کے اگلے احکامات کا انتظار کیا۔ اسی شام کو ہمارے گروپ کی میٹنگ منعقد ہوئی اور غریبستان نامی اس بستی کے مکینوں کے ساتھ نوسر بازی کے منصوبے کو حتمی شکل دی گئی۔ باس نے بتایا کہ جتنا آسان غریبوں کو لوٹنا ہوتا ہے، اتنا ہی مشکل امیروں کو لوٹنا ہوتا ہے۔ غریبوں کو صرف سہانے خواب دکھا کر اور خوبصورت وعدے کرکے آسانی سے لوٹا جا سکتا ہے اور یہی منصوبہ اس بستی کے مکینوں کے لیے بھی تیار کیا گیا۔ اگلے روز نوسر باز گروپ کے ارکان بستی میں پھیل گئے اور ہر جگہ نعروں کی آوازوں سے بستی گونجنے لگی۔ بستی والوں کو یقین دلایا جانے لگا کہ بستی کے دن بدلنے والے ہیں۔ یہاں سب کو مکانات مالکانہ حقوق کے ساتھ ملیں گے، یہاں سب کو باعزت روزگار ملے گا، یہاں اسکول اور کالج تعمیر کیے جائیں گے جہاں مفت تعلیم فراہم کی جائے گی، غرض پبلسٹی کا ایسا دور چلا کہ چند دنوں میں نوسر باز گروپ کے باس اس بستی کے لیے خدا کا اوتار بن چکے تھے۔ ہر شخص ہمارے باس سے ملنے کا شائق تھا اور ان کو ہی اپنا مسیحا مان چکا تھا۔ غرض ہمارے نوسر باز گروپ کا منصوبہ کامیابی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ اسی شام کو ہمارے نوسر باز گروپ کی ایک اور میٹنگ کا انعقاد ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ اب بستی کے لوگوں کو یہ باور کرانا ہے کہ جن لوگوں کی وجہ سے بستی اس حال تک پہنچی ہے، ہمارے باس ان کو بھی نشانِ عبرت بنا کر بستی کے عوام کے ساتھ ہونے والے ظلم کا بدلہ لیں گے۔ لہٰذا لوگوں کو پھر باور کرایا گیا کہ آج بستی کے لوگ جس حال میں ہیں اس کا سبب بستی کے سابق سرپنچ تھے اس لئے جب تک بستی کے سابق سرپنچوں کو نشانِ عبرت نہیں بنا دیا جائے گا ہمارے باس چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اگلے چند دنوں میں بستی کے لوگوں کے پاس نہ صرف بستی کے بہتر مستقبل کے حوالے سے ہمارے نوسر باز گروپ کی جانب سے دکھائے گئے خوبصورت خواب تھے بلکہ بستی کو ماضی میں لوٹنے والوں کو نشانِ عبرت بنانے کے باس کے وعدے کی آس بھی تھی۔ یعنی اب ہمارے باس ہی اس بستی کے نجات دہندہ کی صورت میں موجود تھے۔

ایک روز باس کی جانب سے تمام بستی والوں کو اکٹھا ہونے کا فرمان جاری کیا گیا، تمام بستی والے ایک میدان میں جمع ہو چکے تو باس نے تقریر کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کے ساتھ ماضی میں بہت ظلم ہوا ہے لیکن میں نے آپ کے حالات اور زندگی بدلنے کا جو وعدہ کیا ہے اس پر عملدرآمد کے لیے آپ لوگوں کو مزید امتحان سے گزرنا ہوگا، لیکن آپ بھروسہ رکھیں کہ میں اور میری ٹیم آپ کے حالات بدل دیں گے۔ لوگوں نے باس کی حمایت میں نعرے لگانا شروع کر دیے۔ باس نے موقع غنیمت اور لوگوں کے جذبات کو دیکھتے ہوئے لوگوں سے قربانی مانگی، سب نے یک آواز ہوکر جواب دیا قربانی دیں گے۔ بس پھر کیا تھا، باس نے ہر فرد سے اچھی خاصی رقم بطور ٹیکس طلب کرلی تاکہ بستی کے حالات تبدیل کرنے کے لیے کام شروع کیا جا سکے اور پھر غریبوں نے جمع پونجی، زیور، برتن بیچ کر باس کو رقم دی اور پھر یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہر کچھ دنوں بعد باس بستی کے غریب عوام سے کوئی نہ کوئی تقریب کرکے کسی مقصد کے لیے رقم طلب کرتے اور عوام باس پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے رقم دے دیتے۔ یہاں تک کہ باس کے پاس بہت زیادہ رقم جمع ہو چکی تھی۔ یہ رقم اتنی زیادہ تھی کہ باس کو بھی توقع نہ تھی کہ غریبستان سے اتنی رقم جمع ہو سکے گی، اب باس نے آہستہ آہستہ رقم ٹھکانے لگانے کا کام شروع کیا۔ جبکہ بستی کے لوگ اس انتظار میں تھے کہ بستی کے حالات ٹھیک ہوں لیکن روز بروز بستی کے حالات خراب ہی ہوتے گئے۔ جب بھی بستی کے لوگ باس کے پاس آتے، باس انھیں صبر کی تلقین کرتے لیکن جب باس کی جانب سے کوئی کام نہ ہوا تو بستی کے لوگوں کا صبر بھی جواب دے گیا لیکن نوسر باز گروپ کے باس کو بھی اب یہاں رکنا نہیں تھا، لہٰذا ایک روز لوگوں کو اگلے تین دن بعد ایک بہت بڑی خوشخبری سنانے کا اعلان کر ڈالا۔ بستی کے لوگ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ بڑی مشکل سے گن گن کر تین دن گزارے لیکن وقت نکل چکا تھا۔ نوسر باز کمپنی کے باس بستی چھوڑ کر بہت دور جا چکے تھے، اب انھیں اپنی نوسر بازی کسی دوسری بستی میں بھی تو دکھانا تھی۔

تازہ ترین