• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے معاملے پر پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس مختصر کارروائی کے بعد آئندہ ہفتے تک کے لیے ملتوی ہونے اور اپوزیشن پارٹیوں کے سپریم کورٹ میں جانے کے منظر نامے میں یہ سوالات یکسر بے وزن نہیں کہ آئین کے تحت جس الیکشن کمیشن میں صوبائی نمائندگی کےحامل 4ارکان اور چیف الیکشن کمشنر کو شامل کرنے کے بعد کورم کی ضرورت تین افراد کی موجودگی سے ہی پوری ہوتی ہو وہ ایسے عالم میں کتنا متحرک اور جامد ہے کہ 2جنوری 2019ء کو دو ارکان کے ریٹائرمنٹ کے بعد خالی ہونے والی نشستیں تاحال پُر نہیں ہوئی ہیں اور 6دسمبر چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ ہے۔ متحدہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کی کنوینر اکرم خان درانی (رہنما جے یو آئی۔ ایف) نے اپوزیشن کی مختلف پارٹیوں کے رہنمائوں کے ساتھ مل کر سپریم کورٹ میں جو درخواست دائر کی اس میں استدعا کی گئی ہے کہ مذکورہ ریٹائرمنٹ سے پیدا شدہ صورتحال میں بحران کو ٹالنے کے لیے ’’مناسب حکم‘‘ جاری کیا جائے۔ اس استدعا کا مفہوم بعض حلقے چیف الیکشن کمشنر کی موجودہ میعاد میں توسیع کے سابقہ مطالبے کو سامنے رکھ کر اخذ کر رہے ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کی پٹیشن ایسی کیفیت میں سپریم کورٹ کی بروقت رہنمائی حاصل کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے جو پارلیمانی کمیٹی میں الیکشن کمیشن کے چیئرمین اور ارکان کے تقرر پر اتفاق رائے نہ ہونے کی صورتِ حال میں آرٹیکل 213کی خاموشی کے باعث پیدا ہوئی۔ حزبِ اختلاف کی طرف سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حکومت قائم مقام چیف الیکشن کمشنر مقرر کرنے کی آئینی گنجائش سے فائدہ اٹھانے کے لیے پنجاب کے رکن کو اس منصب پر نامزد کرکے ایڈہاک انتظام کر سکتی ہے جبکہ متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز کمیٹی کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کے قانون ساز اس فیصلے پر پہنچے ہیں کہ آئندہ ہفتے الیکشن کمیشن کے ارکان کی خالی نشستوں اور چیئرمین کے منصب کے لیے ایک ساتھ فیصلہ کیا جائے گا۔ باخبر حلقوں کے مطابق اپوزیشن کے قانون سازوں کا اصرار ہے کہ اس باب میں تبادلہ خیال سے پہلے حکومت کی طرف سے مجوزہ چیئرمین الیکشن کمشنر کا نام سامنے لایا جائے۔ اس منظر نامے میں اپنی اپنی بات منوانے کیلئے فریقین کی کوششیں تو سمجھ میں آتی ہیں لیکن یہ بات جمہوریت کی روح کے منافی ہے کہ معاملات ڈیڈ لاک میں جانے کی نوبت آ جائے جبکہ سیاست ’’ناممکنات‘‘ میں سے ’’ممکن‘‘ تلاش کرنے کے فن کا نام ہے۔ جمہوری نظام چونکہ انتخابات کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے، اس لیے الیکشن کمیشن کا موثر، فعال اور متحرک رہنا اس نظام کی ایسی ضرورت ہے جس کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو اس کی تشکیل سے لیکر ہر مرحلے میں یہ بات یقینی بنانی چاہئے کہ اس کا استحکام قائم و فزوں تر رہے اور اس کے کام میں جمود نہ آئے۔ وطن عزیز میں عشروں سے نظر آ رہا ہے کہ ہر پولنگ کے بعد ہارنے والی پارٹیاں الیکشن کے غیر منصفانہ ہونے کا گلہ کرتی ہیں مگر جب الیکشن کمیشن کیلئے قانون سازی کا مرحلہ آتا ہے تو سب اپنی اپنی ڈفلی بجانے لگتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سب مل کر ایسی قانون سازی یقینی بنائیں جس سے الیکشن کمیشن مستحکم ہو۔ طویل دھرنوں اور بڑے ہجوموں کے مارچوں سمیت بہت سے تجربات کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام پارٹیاں مل کر اداروں کو مستحکم کرنے پر توجہ دیں۔ آئینی بحران سے بچنے کی تدبیر سب کی ذمہ داری ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں وقتاً فوقتاً مشاورت کی روایت قائم کرکے ملک میں سیاسی استحکام یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین