• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مَیں نے پاکستان میں حکومتیں بنتی اور گرتی دیکھی ہیں اور عالمی شہرت کے مؤرخ ٹائن بی کی تصنیف Study of Historyکا گہرائی سے جیل میں مطالعہ کیا تھا۔ 1975سے 1977کے وسط تک ہم دونوں بھائی (ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور میں اَلطاف حسن قریشی) کوٹ لکھپت جیل میں تھے، ہمارے خلاف مسٹر بھٹو کی حکومت نے اپنی پالیسیوں سے اختلاف کرنے پر بغاوت کا مقدمہ بنایا اور ٹریبونل نے ہمیں دو سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔ ہم پر لکھنے اور پڑھنے کی سخت پابندی تھی، تاہم سپرنٹنڈنٹ جیل نے ایک دو کتابیں ساتھ رکھنے کی اجازت دے دی جس میں ٹائن بی کی شہرہ آفاق کتاب بھی تھی جس میں اُنہوں نے انسانی تاریخ میں ڈوب کر معاشروں اور حکومتوں کے عروج و زوال کے اصول مرتب کیے تھے۔ میں نے بھی اُنہیں اپنے شعور کے اندر بسا لینے کی کوشش کی تھی۔

ہم نے نومبر 1960میں ماہنامہ اُردو ڈائجسٹ کا اجرا کیا۔ اُس وقت ایوب خاں کی جہانبانی قائم تھی جس میں صحافیوں اور قلم کاروں کے لیے قدم قدم پر پریس اینڈ پبلی کیشنز کی ٹکٹکیاں لگی ہوئی تھیں۔ اگر کسی اخبار یا جریدے کا دفتر کرائے کی عمارت میں ہوتا، مالک اُسے فوری طور پر خالی کر دینے پر مجبور کرتا اور حالتِ مجبوری میں اخبار کا دفتر تبدیل کرنا پڑتا اور متعلقہ محکمے کو اطلاع دینے میں ایک دن کی بھی تاخیر ہو جاتی تو جریدے کا ڈیکلیریشن منسوخ اور مدیرِ مسئول کو سپردِ زنداں کر دیا جاتا۔ یہ وہی زمانہ ہے جس میں جنرل ایوب خاں نے اقتدار سنبھالتے ہی میاں افتخارالدین کے پاکستان ٹائمز، امروز اور لیل و نہار پر قبضہ کر لیا تھا۔ کسی کو زبان کھولنے کی اجازت نہیں تھی۔ جب اِس طرح کے حالات ہوں، تو پھر اشاروں، کنایوں اور شعروں ہی میں بات کی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بطلِ حریت حبیب جالبؔ عوام و خواص کے اندر بہت مقبول تھے اور اُن کی یہ نظم ’ایسے دستور کو صبح بےنور کو، میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا‘ زبان زدِ عام تھی۔ مجھے اُن دنوں غالبؔ کا یہ شعر بہت پسند تھا ؎

نظر لگے نہ کہیں اُن کے دست و بازو کو

یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں

اِسی قبیل کا دوسرا شعر یہ تھا ؎

مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں​

شایانِ دست وبازوئے قاتل نہیں رہا​

سخت پابندیوں کے عہد میں دستِ قاتل کے کارنامے بیان کرنے کی تو جرأت نہیں تھی، اِس لیے ہم غالبؔ کے اشعار پڑھ کر اپنے کرب کا اظہار اِس طرح کرتے رہے کہ قانون کی پکڑ میں بھی نہ آئے اور عوام کے اندر مزاحمت کی جوت بھی جگائے رہے۔ جب شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے ریاست کی طاقت کے ذریعے شہروں کو قبرستانوں میں تبدیل کر دیا اور اچھی دال روٹی کا انتظام کر کے شہری آزادیوں کا گلا گھونٹ دیا، تو میں پکار اُٹھا ؎

قحطِ آشفتہ سراں ہے یارو، شہر میں امن و اماں ہے، یارو!

ہائے! اربابِ وفا بھی یہ کہیں، اب جنوں کارِ زیاں ہے، یارو!

پھر ایک چھوٹے سے واقعے پر سارے بند ٹوٹ گئے اور جناب ذوالفقار علی بھٹو کے سلطان صلاح الدین ایوبی عوام کے تلاطم خیز طوفان میں تنکے کی مانند بہہ گئے۔ اُن کی ہیبت، اُن کی حد سے بڑھی ہوئی خوداعتمادی اور اُن کا غرور کسی کام نہ آیا اور وہ طرح طرح کے القابات سے نوازے گئے۔ اُن کی مصنوعی طور پر قائم شدہ سیاسی جماعت میں دیکھتے ہی دیکھتے بغاوت ہو گئی اور اُنہی کے پروردہ، اُن کے خلاف سازشوں کو مہمیز دینے لگے۔ اُن کے بعد مختلف شخصیتیں اقتدار کے تخت پر براجمان ہوئیں اور عوام کو مرکزی اہمیت نہ دینے کے جرم پر قدرت کی پکڑ میں آتی گئیں اور جب ہوش آیا تو دیر ہو چکی تھی، البتہ توبہ کی گنجائش ہر وقت رہتی ہے۔ حالات نے پلٹا کھایا اور ہمیں عمران خانی دور دیکھنے کا موقع ملا اور اب دستِ قاتل کی بلائیں لے کر ہم اپنا وجود قائم رکھ سکتے ہیں جس میں اور ایوب خاں کے دستِ جفا میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔

جناب عمران خان کا اقتدار دانت نکالنے کے تکلیف دہ مراحل سے باہر آ چکا ہے اور معیشت میں استحکام کی نوید عالمی ادارے بھی سنا رہے ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ختم ہو گیا ہے، جبکہ اسٹاک مارکیٹ پر سرمایہ داروں کا اعتماد بڑھتا جا رہا ہے۔ موڈیز نے خسارے کے بجائے پلس کی ریٹنگ دی ہے۔ بلاشبہ یہ صورتحال بہت خوش آئند رجحانات کی عکاس ہے جو ایک اچھے مستقبل کی آس دلاتی ہے، مگر اس پر اربابِ حکومت کو اپنی فتوحات کے بڑے بڑے دعوے کرنے سے اجتناب کرنا ہو گا، کیونکہ عوام جو معیشت کے اصل اسٹیک ہولڈرز ہیں، ابھی تک سخت عذاب سے گزر رہے ہیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک جناب رضا باقر نے برملا اعتراف کیا ہے کہ بلند سطح کے افراطِ زر اور بلاواسطہ ٹیکسوں نے غریب اور دَرمیانے طبقے کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ اشیائے خورونوش کی ذخیرہ اندوزی اَور اُن کی ہوش رُبا قیمتوں نے عام آدمی کو زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم کر دیا ہے۔ غیر جانب دار اقتصادی ماہرین کی نظر میں درآمدات پر سخت بندشوں کے باعث ہماری معیشت بری طرح سکڑ گئی ہے اور اِقتصادی نشوونما 5.8فیصد کے بجائے مشکل سے 2فیصد رہ گئی ہے۔ اِس کے واضح اثرات یہ برآمد ہو رہے ہیں کہ روزگار کے مواقع محدود اَور شرحِ سود 13.5فیصد رَہنے کے باعث درمیانے درجے کے کاروبار ٹھپ ہوتے جا رہے ہیں۔ بڑے طاقتور عوامل جو معیشت کے لیے سنگین چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں، اُن میں سیاسی عدم استحکام سب سے خوفناک چیلنج ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین مسلسل آویزش نے کاروبارِ مملکت میں بہت بڑے بڑے ڈیڈلاک پیدا کر دیے ہیں جن کے ہولناک نتائج سب کے سامنے ہیں، مگر اعلیٰ سطح پر خودنمائی اور ہٹ دھرمی نے اِس قدر مضبوط پنجے گاڑ رکھے ہیں کہ خوفناک تصادم سے بچنے کی فوری صورت دکھائی نہیں دیتی۔ ایسے میں سیاسی استحکام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جسے پارلیمنٹ کے ارکان کی سیاسی پختگی، باہمی رواداری اَور دُوراندیشی سے بروئےکار لایا جا سکتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین