• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسے حالات میں جب ملک شدید معاشی بحران پر قابو پانے کی مشکل تگ و دو میں ہے، مہنگائی عروج پر ہے، بنیادی ضروریات کی تقریباً تمام اشیاء عام آدمی کی رسائی سے باہر ہیں، اسٹریٹ کرائمز نے زندگی اجیرن کر رکھی ہے، غیر ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے، ملکی سلامتی کو درپیش خطرات میں کمی نہیں آئی اور ان تمام مشکلات سے نکلنے کی تدابیر کے خاطر خواہ نتائج ابھی نظر نہیں آرہے۔ اندرونِ ملک الزامات کی سیاست زوروں پر ہے اور حکومت اور اپوزیشن سنجیدہ ملکی مسائل کو حل کرنے کے لئے سر جوڑ کر بیٹھنے کے بجائے لفظی گولہ باری سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں۔ زیادہ شور اس بات پر ہے کہ سیاسی منظر نامے سے ’’مائنس‘‘ کون ہوگا، عمران خان یا مریم نواز؟ فریقین میں مبازرت آرائی اتوار کو بھی جاری رہی۔ مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے مطالبہ کیا کہ اتفاق رائے سے اِن ہائوس تبدیلی لاکر دو تین ماہ کے لئے نیا وزیراعظم لایا جائے یعنی عمران خان کو مائنس کیا جائے، نیا وزیراعظم اصلاحات لائے اور تمام جماعتوں کی مشاورت سے نئے عام انتخابات کا اعلان کرے۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ نیب اور پی ٹی آئی کو سرکاری خرچ پر صرف (ن) لیگ کے خلاف سیاسی انتقام کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مریم نواز کے بجائے عمران خان کا نام ای سی ایل پر ہونا چاہئے۔ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ہم نے حکمرانوں کی گردن سے سریا نکال دیا ہے، ان کی کشتی ڈوبنے والی ہے۔ حکومتی ترجمان بھی ترکی بہ ترکی جواب دینے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ جہانگیر ترین خبردار کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی میں مائنس عمران خان کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، وہ نہیں اب مریم نواز مائنس ہو رہی ہیں۔ فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کا اقتدار کا نشہ اتر چکا، عمران اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں، لندن میں بیٹھا ہوا مافیا اپنا مال بچانے کے لئے تگ و دو کر رہا ہے۔ سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم پیپلز پارٹی کو دھمکی دے رہے ہیں کہ جب چاہیں سندھ میں گورنر راج لگا کر اس کی حکومت کا دھڑن تختہ کر سکتے ہیں۔ سیاست کرنے کا یقیناً سب کو حق ہے مگر یہ اصولوں اور ایشوز کی بنیاد پر ہونی چاہئے، ذاتیات پر نہیں۔ ایک دوسرے پر الزامات کی سیاست سے قومی تقاضے مجروح ہوتے ہیں۔ ملک کا، جمہوریت کا اور خود سیاست کا نقصان ہوتا ہے۔ کسی کی حب الوطنی پر حملہ اور مخالفین کو کافر اور غدار قرار دینا، منفی سیاست کے حربے ہیں۔ سیاسی عمل ’جیو اور جینے دو‘ کا متقاضی ہے، بدقسمتی سے اس وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں کی طرف سے اس اصول کی پاسداری محل نظر ہے۔ برسر اقتدار پارٹی نے حکومت میں آنے کے لیے عوام سے بہت سے وعدے کئے تھے۔ انہیں بروئے کار لانے کیلئے پارلیمنٹ میں قانون سازی کی ضرورت ہے، جو نہیں ہو رہی ہے۔ پچھلے تقریباً ڈیڑھ سال کے عرصے میں عوام کے مفاد میں کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔ ملک کے متفقہ آئین کے باوجود معیشت پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ حکومت آرڈی ننسوں سے چلائی جا رہی ہے۔ اپوزیشن کا طرزِ عمل بھی پارلیمانی تقاضوں کے مطابق سنجیدہ نہیں۔ یہ ماضی کی روایات کے بھی منافی ہے جب اپوزیشن کے ارکان اہم ایشوز پر پوری تیاری کے ساتھ آتے اور ایوان میں پرمغز تقاریر کرتے، حکومت کی غلطیوں پر جہاں گرفت کرتے وہاں قومی مفاد میں اس کا ساتھ بھی دیتے، جیسے بھٹو صاحب شملہ گئے تو اپوزیشن نے اظہار یکجہتی کیلئے لاہور سے انہیں خود رخصت کیا۔ قومی مفاد کا اس وقت شدید تقاضا ہے کہ حکومت قوم سے اپنے وعدے پورے کرنے کیلئے اپوزیشن کی مشاورت سے قانون سازی کرے اور اس کی اچھی تجاویز قبول کرے۔ اسے ساتھ لے کر چلے۔ یہی رویہ قوم، ملک اور جمہوریت کیلئے فائدہ مند ہے۔

تازہ ترین