• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہندوستان کے 46فیصد مردوں نے کہا ہے کہ اگر عورتیں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر منہ بند رکھیں تو گھر برباد نہ ہوں، کیا خوبصورت مشورہ ہے۔ پاکستان میں ٹی وی کے ذریعے بنے ادیب نے بھی اس سے بھی بڑھ کر بڑھک ماری ہے اور اتنی بے ہودہ کہ میں دہرا بھی نہیں سکتی۔

اتنی واہیات باتوں کے بجائے گزشتہ دنوں ملک اور دنیا بھر میں ہونے والی چند ایسی باتیں جن پر عملدرآمد کرکے شاید اس وحشت کو کم کر سکیں کہ بچیوں کے ساتھ جسمانی زیادتی ہی نہیں، ان کو مار کر کھیتوں میں ڈال دینے والوں کو نہ اپنی آخرت کی فکر نہ کسی قسم کے گناہ کا تصور ہے۔

لبنان کی حکومت اور سوشل ورکرز نے مذہبی علماء کو عورت کی عزت اور مساوات اور معاشرے کے بارے میں تلقین کرنے اور مساجد کے علاوہ دیگر تقریبات میں لوگوں کو سمجھانے کی ذمہ داری سپرد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اللہ کرے ہمارے ہاں بھی مائوں، بہنوں کی عزت کرنے اور عورتوں کو بھی مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے مائل کریں تو اس طرح ذہنی پراگندگی ختم ہو۔

بہت اچھی تجویز تو چیف جسٹس صاحب نے دی ہے کہ چھوٹی کچہری سے لے کر سپریم کورٹ تک خواتین کی موجودگی اور نمائندگی پر زور دیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ منصفانہ فیصلے کریں، جو مثال بن سکیں۔

نیب، حکومت اور افسر دونوں کوشش کریں کہ بنا الزام ثابت ہوئے کسی کو تحویل میں نہ لیا جائے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ بعض لوگوں کو بنا کسی ثبوت (جو ابھی تلاش کئے جا رہے ہیں) نیب کا ادارہ ہر پندرہ دن کے لئے جیل میں رکھے ہوئے ہے۔ گدھے گھوڑے میں تمیز ہی نہیں۔

اے میری اسمبلیوں والو! اکٹھے ہو کر ایسے قوانین بدلو، کسی بھی شخص کو بنا ثبوت دس دن سے زیادہ اندر رکھنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اب یہ بھی کوئی بات ہے کہ طلبہ نے گزشتہ جمعہ کو جلوس نکالا۔ ایک دن ایسا تھا کہ سارے لڑکے لڑکیاں ہنس رہے تھے۔ قہقہے اور نعرے ایک ساتھ‘ جلترنگ تک بنے ہوئے تھے۔ یہ کیا بے وقوفی ہے کہ جلوس نکالنے والے بچوں کو گرفتار کیا جائے۔ ایک اور بات کسی سمجھدار شخص نے کہی ہے کہ جو شخص اپنی آدھی سزا کاٹ چکا ہے، اس کو رہا کر دو۔

انڈیا کے نابغہ روزگار رہنمائوں نے دھرم بچانے کیلئے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اردو کے تمام لفظ نکال دو اور ان کی جگہ سنسکرت کے لفظ شامل کرو۔ یوں ایسا کیا تو آپ کی پوری فلم انڈسٹری تباہ ہو جائے گی۔

چکبست جیسے شاعروں کو جنہوں نے زبردست نعتیں بھی لکھی ہیں، کیا کتابوں سے نکال دو گے۔ اردو کے عظیم شاعر فراق گورکھپوری کو نکال کر تمہارے پاس بچے گا کیا! پریم چند کو نصاب سے نکال دو گے، کیا راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، اوپندر ناتھ اشک، کنھیا لال کپور کو ادیبوں میں شمار نہیں کرو گے۔ شیام بینگال اور کٹر ہندو اداکار جو عظیم اداکار ہے مگر فلموں کی زبان اردو یا اسے ہندوستانی کہو، بولنے پر مجبور ہوا۔

غربت کا انڈیا میں بھی یہ حال ہے کہ 7ہزار انجینئروں نے سینٹری ورکر کی پوسٹ کیلئے اپلائی کیا ہے۔ ویسے ہمارے ملک میں بھی ایم اے پاس سپاہی کی نوکری کیلئے درخواست دیتے ہیں۔

سبب کیا ہے، ہم لوگ اپنے بچوں کو نہیں سمجھاتے کہ اس وقت ٹیکنالوجی میں کس ہنر کی مانگ ہے۔ ہم بے ضرورت اردو، انگلش، تاریخ اور جغرافیہ میں ماسٹرز کرکے ایک مضمون تو لکھ نہیں سکتے، تحقیق کرنے کی جانب راغب نہیں ہوتے۔ جانتے بھی نہیں کہ خالی خولی ماسٹرز کرنا وقت اور پیسے کا زیاں ہے۔ انڈیا میں تو ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد یونیورسٹی میں نوکری ملتی ہے۔ کراچی کی لڑکیوں نے لوگوں سے کہا کہ ہمیں اچھے اور نفیس سلوگن دیں۔ اللہ معاف کرے جو کچھ ان بچیوں کو سننا پڑ رہا ہے۔

واقعی یہ وحشیانہ معاشرہ ختم کرنا ہے تو سارے مذاہب کے نمائندوں اور سیاست دانوں کو مل کر اخلاقیات مرتب کرنا پڑیں گی، تب ہی دارالامان جیسی جگہوں پر لڑکیاں محفوظ رہ سکیں گی۔ دارالامان ویسے معاف کیجئے، چالیس برس سے تو میں سن اور دیکھ رہی ہوں، بچیوں کو وہاں امان مشکل ہی سے ملتی ہے۔ اب لاڑکانہ میں نمرتا جیسی بچی اور کراچی میں دعا جیسی بچی کے ساتھ زیادتی صرف اس وجہ سے ہوئی کہ وہ لڑکوں کے ساتھ بیٹھ کر چائے پیتی تھیں۔ انتہائی احمقانہ جواز ہے۔

پھر تو کھیتوں میں اور فیکٹریوں میں عورت کام بھی نہ کرے، اب جبکہ ماشاء اللہ کئی لڑکیاں ضلعوں میں ڈپٹی کمشنر ہیں، پولیس میں، ٹریفک اور آرمی میں ہیں، آپ سب نے دیکھا ہوگا کہ افغانستان میں جو امریکی فوجی ہیں ان میں خواتین بھی شامل ہیں، ہمارے یہاں عورتیں، سڑکیں بنانے والے مزدوروں میں شامل ہوتی ہیں اور اب تھرپارکر میں سو عورتیں ٹرک چلا رہی ہیں۔

سعودی لوگ بتاتے ہیں کہ اب تو ریاض پہلے جیسا ریاض ہی نہیں رہا، اب وہاں خواتین گاڑیاں چلا رہی ہیں، گھروں کی مالکن ہیں اور دفاتر میں نوکریاں کر رہی ہیں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ملک میں بینک کی ریٹائر آفیسر سڑک پر ہے، بچوں نے کیا کیا، یہ بات سب کو معلوم ہے، سنا ہے حکومت نے بزرگوں کیلئے مراکز بنانے کا عہد کیا ہے۔

شیریں اور تانیہ میری دوستو براہِ مہربانی اس طرف نظر جلدی کرو۔ ہم تم بھی اب بزرگوں کی صفوں میں ہیں، بچوں کیلئے خاص طور پر جنہیں صبح صبح کاغذ چنتے دیکھتی ہوں اور وہ محتاج ماں اور باپ جن کو سڑکوں پر مانگنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ سب ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔

سول سوسائٹی کی طرف سے ایک سفارش، وزیراعظم صاحب نیب کے قوانین بدلیں، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ لوگ دو دو سال سے جیل میں ہیں اور ابھی تک ان کے مجرم ہونے کا ثبوت پیش نہیں کیا گیا، بچوں اور لڑکیوں کے اغوا کے سلسلے میں آپ کی حکومت قوانین پر عملدر آمد کروائے گی تو یہی آپ کی ریاستِ مدینہ کیلئے کارِ ثواب ہو گا۔

تازہ ترین