• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) لاہور میں وکلا کے حملے سے جو سانحہ رونما ہوا، اس پر ندامت کے اظہار کے لئے بحیثیت قوم ہمیں نئی لغت بنانا پڑے گی۔ 

جھگڑا دو فریقوں ڈاکٹرز اور وکلا کا تھا، اس میں وہ مریض جان سے چلے گئے، جو زندہ رہنے کی خواہش میں اسپتال میں زیر علاج تھے۔ ویسے تو پاکستان جیسے ملک میں انسانوں کی غیر طبعی موت اب کوئی ایسا مسئلہ نہیں رہا، جس پر ماتم کیا جائے لیکن سانحہ پی آئی سی لاہور ایک ایسی جگہ رونما ہوا، جہاں زندگیاں بچائی جاتی ہیں۔ زندگیاں لی نہیں جاتیں۔ 

ایک ہی وقت میں ایک ہزار انسانوں کو قتل کرنے والا دہشت گرد اگر زخمی حالت میں اسپتال پہنچتا ہے تو اس کی بھی زندگی بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پی آئی سی لاہور میں سسکتے مریضوں کے منہ پر لگے ہوئے ماسک اتارے گئے۔ جو مریض بستر سے اٹھ نہیں سکتے تھے، انہیں بھاگ کر اپنی جان بچانا پڑی اور کچھ کو تو بھاگنا مہنگا پڑا اور اپنی زندگی سے بھی آگے نکل گئے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ذرائع ابلاغ نے اس واقعہ کو ایسے الفاظ میں خبر بنا کر پیش کیا کہ بحیثیت قوم ندامت کے لئے بھی ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں۔

دنیا بجا کہہ رہی ہے کہ جنگوں کے دوران بھی اسپتالوں پر حملے نہیں ہوتے۔ جنگوں میں بھی کوئی اصول ہوتے ہیں۔ پاکستان گزشتہ چار عشروں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ 

تاریخ انسانی میں دہشت گردی کے بدترین واقعات پاکستان میں رونما ہوئے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی میں جنگوں کے اصول بھی پامال کر دیے جاتے ہیں۔ جنگوں میں اسپتال تو کیا، سویلین آبادی پر بھی حملوں کو جنگی اصولوں کے منافی تصور کیا جاتا ہے جبکہ دہشت گرد سب سے زیادہ سویلین آبادی کو نشانہ بناتے ہیں۔ 

اب تو نیٹو فورسز بھی سویلین آبادی پر ڈرون حملے کرتی ہیں لیکن اس کی مذمت ہوتی ہے۔ بہرحال پاکستان میں دہشت گردوں نے اسپتالوں میں مریضوں پر حملہ نہیں کیا۔ کوئٹہ اور کراچی کے اسپتالوں میں ایمرجنسی سینٹرز میں دہشت گردی کی کارروائیاں ہوئیں لیکن وارڈز کے اندر حملے نہیں ہوئے۔ پی آئی سی لاہور میں تو وارڈز، آئی سی یو اور آپریشن تھیٹرز بھی محفوظ نہیں رہے۔ یہ واقعہ ہماری قومی تاریخ میں ناقابل فخر واقعات میں ہمیشہ ناقابل فراموش رہے گا۔

اس واقعہ نے ہمارے سماج کے فسطائی رجحانات کو نہ صرف اجاگر کیا ہے بلکہ ہماری انتظامیہ اور پولیس کی نااہلی کو بھی ثابت کیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سانحہ اچانک رونما نہیں ہوا۔ اس سے پہلے وکلا نے اس کی منصوبہ بندی کے لئے اجلاس منعقد کیا۔ 

اجلاس میں انٹیلی جنس اداروں کے نمائندے بھی موجود ہوں گے کیونکہ وہ اکثر ایسی جگہوں پر اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ پھر جب سینکڑوں وکلا کا جتھہ اسپتال کی طرف روانہ ہوا تو نہ صرف انٹیلی جنس اداروں بلکہ پولیس اہلکاروں نے بھی اعلیٰ حکام کو آگاہ کیا ہوگا۔ وکلا چار پانچ کلومیٹر کا سفر پیدل کرکے آئے جس سے راستے میں سڑکیں اور گلیوں میں ٹریفک بھی بلاک ہوئی ہوگی اور شہر میں غیر معمولی صورتحال پیدا ہوئی ہوگی۔ 

اس حوالے سے بھی لمحہ بہ لمحہ حکام کو آگاہ کیا جاتا رہا ہوگا۔ سینکڑوں وکلا جب اسپتال کے اندر داخل ہو رہے ہوں گے تو ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار اپنے اوپر والوں کو بتاتے رہے ہوں گے کہ کیا ہو رہا ہے کیونکہ یہ پولیس کی معمول کی کارروائی ہے، جو وہ وائرلیس کے ذریعے کرتی رہتی ہے تاکہ حالات بگڑنے کی ذمہ داری ان پر عائد نہ ہو اور وہ یہ کہہ سکیں کہ انہوں نے اوپر والوں کو اطلاع کر دی تھی تاکہ انہیں ہدایات مل سکیں۔ اوپر والے اپنے اوپر والوں کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ 

ہر ایک اپنی ذمہ داری پوری کرتا رہتا ہے۔ وکلا جب وارڈز، آپریشن تھیٹرز اور آئی سی یو پر حملے کر رہے تھے، تب بھی حکام کو خبر مل رہی ہو گی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی بھی سطح پر کسی نے بھی اس سانحہ کو روکنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ جب وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان معاملے کی نزاکت کا احساس کرکے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے تو پولیس اور انتظامی افسران کیا کر رہے تھے۔

 اس واقعہ پر جوڈیشل کمیشن بننا چاہئے، جو حملہ آوروں کی سزا کا تعین تو ضرور کرے لیکن پولیس اور انتظامیہ کے ان لوگوں کا بھی تعین کرے، جن کی غفلت اور بروقت فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے یہ سانحہ رونما ہوا۔

جو کچھ وکلا نے کیا، یہ انتہا ہے لیکن ہم سب کو اپنے رویوں کا ازسر نو جائزہ لینا چاہئے۔ ہم سب انتہا پسندانہ اور فسطائی رجحانات کی لپیٹ میں ہیں۔ ہم لوگوں میں برداشت ختم ہو گئی ہے۔ 

ہم اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے اور غلط کام کرکے بھی اپنے آپ کو حق پر تصور کرتے ہیں اور اختلاف کرنے والوں کو طاقت سے کچل دینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان فسطائی رویوں نے جمہوری اور کمیونٹی کی تنظیموں کو جتھہ بند گروہوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ 

وکلا کے اشتعال سے پہلے جو واقعات رپورٹ ہوئے، ان کے مطابق سب سے پہلے وکلا نے قطار میں لگ کر پرچی بنوانے سے انکار کیا۔ ان کے ردعمل میں ڈاکٹرز نے انہیں پیٹا۔ 

ڈاکٹرز نے بھی معاملے کو افہام و تفہیم سے حل نہیں کیا اور وڈیو وائرل کرکے وکلا کو اشتعال دلایا۔ مشتعل وکلانے پھر جو کیا، وہ انتہا سے بھی زیادہ ہے۔ پھر ایک گروہ کو لعن طعن کرنے کے لئے ہر کوئی جس طرح تبصرے کر رہا ہے، وہ بھی ہمارے انتہا پسندانہ رویوں کا عکس ہے۔ 

ان رویوں کو وسیع تر تناظر میں ہم اپنے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں، دانشوروں، تجزیہ کاروں اور اہل رائے طبقے کے بیانیہ میں دیکھ سکتے ہیں۔ الامان والحفیظ، ہم کس طرف جا رہے ہیں۔

تازہ ترین