لاہور (خبر نگار خصوصی) سینئر قانون دانوں نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلہ پر مختلف آراء کا اظہار کیا ہے، تاہم تفصیلی فیصلہ کے پیرا66 پر ماہرین قانون ے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پرویز مشرف کی لاش کو تین دن ڈی چوک میں لٹکانے کے حکم کو غیر انسانی اور بنیادی انسانی حقوق کے منافی قرار دیا۔
سینئر قانون دان جسٹس (ر) ڈاکٹرخالد رانجھا نے کہا کہ تفصیلی فیصلے کا پیرا 66 فاضل جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کی بنیاد بن سکتا ہے اور خصوصی عدالت کے اس جج کے خلاف ریفرنس دائر ہونا چاہیے۔
خصوصی عدالت کا پرویز مشرف کی عدم موجودگی میں فیصلہ سنانا درست نہیں پاکستان میں ایسا کوئی فوجداری مقدمہ موجود نہیں۔ جسٹس (ر) احسن بھون نے کہا کہ تفصیلی فیصلہ سے خصوصی عدالت کے جج کا تعصب ظاہر ہو رہا ہے ۔ اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہوگی تو یہ فیصلہ اس بنیاد پر ختم بھی ہو سکتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق صدر عارف چودھری ایڈووکیٹ نے کہا کہ تفصیلی فیصلے کا پیرا نمبر 66ہی اس فیصلہ کو کالعدم قرار دینے کیلئے کافی ہے۔ جج صاحب نے جس طرح سزا پر عمل درآمد کا حکم دیا ہے اس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔
بھٹوکیس میں جسٹس مولوی مشتاق ذوالفقار علی بھٹو کے سخت خلاف تھے مگر انہوں نے بھی بھٹو کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے ایسا نہیں لکھا تھا۔ سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ عبدالرحمٰن نے کہا کہ تفصیلی فیصلے یا پیرا 66 ہی اس فیصلہ کو کالعدم قرار دینے کیلئے کافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تفصیلی فیصلہ میں بھی بہت سی کمزور یاں ہیں جن کا فائدہ اپیل میں پرویز مشرف کو ہوگا۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ جنرل مشرف کے خلاف فیصلہ غصہ میں لکھوایا گیا ہے جس سے دنیا بھر میں عدلیہ کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔