اختر بلوچ
قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد یہ بات تو طے تھی کہ ان کی تدفین کراچی میں ہوگی۔ البتہ ان کی قبر کے لئے جگہ کا انتخاب ایک اہم مسئلہ تھا۔قائداعظم کے مزار کی جگہ کے انتخاب کی ذمہ داری اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر جناب ہاشم رضا کو سونپی گئی۔
یہ بڑا مشکل کام تھا۔ اس مقصد کے لئے چار پانچ مقامات کا جائزہ لیا گیا، مگر ان میں کوئی نہ کوئی نقص پایا گیا۔بالآخر سید ہاشم رضا نے محترمہ فاطمہ جناح کے مشورہ سے موجودہ جگہ کا انتخاب کیا ۔ یہ جگہ اس لحاظ سے منفرد تھی کہ شہر کے عین وسط میں ایک بلند مقام پر واقع تھی اور شہر کی مرکزی شاہراہ کے کنارے تھی۔
اب یہاں چھ بڑی سڑکیں آکر ملتی ہیں۔موجودہ مقام پر تدفین کے بعد اس بات پر خصوصی توجہ دی گئی کہ بانیء پاکستان کی قبر پر جوبھی مزار بنایا جائے وہ نہ صرف قائداعظم کے شایان شان ہو بلکہ ان کے عظیم تخیلات اور تصورات کی جیتی جاگتی تصویر ہو۔
قائداعظم کو کراچی میں پرانی نمائش پر جس جگہ سپرد خاک کیا گیا وہ جگہ 144 ایکڑ رقبہ کا ایک ہموار قطعہ اراضی ہے اس رقبے پر ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ مہاجرین نے جھونپڑیاں ڈال رکھی تھیں۔ قائداعظم کے انتقال کے وقت کراچی انتظامیہ کے سربراہ جناب ہاشم رضاصاحب تھے۔
لیاقت علی خان صاحب نے ہاشم رضا صاحب سے کہا کہ وہ شہر میں ایسی جگہ کا انتخاب کریں، جہاں قائد اعظم کو سپردخاک کیا جاسکے پھر کچھ روز بعد قائد کے مزار کے لئے جگہ تلاش کرلی گئی سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ یہاں قائد اعظم کی میت کیوں کر لائی جائے، کیونکہ یہاں چاروں طرف دو لاکھ جھونپڑیاں تھیں ، پھر ہاشم رضا صاحب نے لوگوں سے اپیل کی کہ یہ جگہ قائد اعظم کی ابدی جگہ کے لئے منتخب کی جا چکی ہے۔
یہاں کے عوام نے بہت جلد اپنے قائد کے لئے جگہ خالی کردی اور پھر قائد اعظم کو موجودہ جگہ پر سپرد خاک کیا گیا۔ ستمبر 1948ء سے فروری 1960ء تک بابائے قوم کا مزار شامیانے تلے رہا۔
مزار کے لیے کل چار نقشے تیار کیے گئے تھے ۔ایک نقشہ ترک آرکیٹیکٹ اے واصفی ایگلی، دوسرا آرکیٹیکٹ نواب زین یار جنگ اور تیسرا برطانوی آرکیٹیکٹ راگلن اسکوائر نے تیار کیا تھا۔ یہ تینوں نقشے رد کر دئیے گئے ۔بالآخر دسمبر 1959میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی خواہش پر نقشے کی تیاری کا کام ایک آرکیٹیکٹ یحیےٰ مرچنٹ کو دیا گیا۔
مزار کے ڈیزائن کا بنیادی کام 28جنوری1960کو مکمل ہوگیا تھا۔ تعمیراتی کام کا باقاعدہ آغاز 8فروری 1960کو ہوا 31جولائی 1960کو اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان نے مزار کا سنگ بنیاد رکھا 31مئی 1966کو مزار کا بنیادی ڈھانچہ مکمل ہوکے12جون 1970کو عمارت کو سنگ مرمر سے آراستہ کرنے کا کام پائےتکمیل تک پہنچا۔
23دسمبر1970کو چین کے مسلمانوں کی جانب سے بطور تحفہ بھیجا گیا 81فٹ لمبا فانوس گنبد میں نصب کر دیاگیا۔ مزار کی تعمیر پر ایک کروڑ 48لاکھ روپے کی لاگت آئی جو اس زمانے میں ایک خطیر رقم تھی۔ مزار کا کل رقبہ 116ایکڑ مرکزی رقبہ 61ایکڑ اطراف کے 55ایکڑ پر مشتمل ہے۔
مزار کے5دروازے ہیں ایم اے جناح روڈ پر واقع دروازے کا نام باب جناح، شاہراہ قائدین پر واقع گیٹ کا نام باب قائدین ،مشرقی جانب واقع دروازے کو باب تنظیم اور شمالی جانب واقع گیٹ کو باب امام ، پرانی نمائش پر واقع گیٹ کو باب اتحاد کا نام دیاگیا ہے۔ مزار کے مشرقی حصے میں ایک کمرے کے اندر پانچ قبریں ہیں۔
یہ قبریں معمولی افراد کی نہیں ہیں بلکہ ان کے سیاسی سفر میں شریک رفقائے کار کی ہیں۔ ان میں سب سے پرانی قبر لیاقت علی خان کی ہے،دوسری قبر سردار عبدالرب نشتر کی ہے ،تیسری قبر محترمہ فاطمہ جناح کی ہے، چوتھی قبر محمد نورالامین کی ہے اور پانچویں قبر بیگم رعنا لیاقت علی خان کی ہے۔
مزار قائد اپنی منفرد عمارت اور اچھوتے طرز تعمیر کی وجہ سے پاکستان کی بہترین عمارتوں میں شمار ہوتا ہے۔ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ مزار کی تعمیر میں استعمال ہونے والا تمام سامان ملکی ذرائع سے حاصل کیا گیا ہے اور یہ ہمارے ملکی معماروں اور ہنرمندوں کی شبانہ روز محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مزار کی تعمیر میں قائد کی شخصیت،کردار، مرتبے اور اسلامی فن تعمیر کو خصوصی طور پر مدنظر رکھا گیا ہے۔
مزار کے ڈیزائنر جناب یحی مرچنٹ نے ڈیزائن میں بہت ساری تشبیہات سے کام لیا ہے۔ وہ خود یہ فرماتے ہیں کہ ’’کراچی ایک ایسا شہر ہے جہاں قائد پیدا ہوئے، زندگی بھر مسلمانان ہند کی رہنمائی کے بعد انتقال بھی یہیں کیا،اس مزار کو ڈیزائن کرتے ہوئے میں نے عظیم رہنما کی ذاتی خصوصیات کو بھی پیش نظر رکھا۔‘‘