شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کو 12برس ہو چکے ہیں، ان کی شہادت سے بھٹو خاندان، پیپلز پارٹی، پاکستان اور پورے عالم کا جو نقصان ہوا اس کا کوئی ازالہ نہیں ہو سکتا۔ 27دسمبر پیپلز پارٹی کے لئے شامِ غریباں کی مثل ہے جس کو یاد کرکے ہم سب کا دل دہک جاتا ہے، یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس کو الفاظ میں پرونا ممکن ہی نہیں۔
تاریخ گواہ ہے اس ملک کو ہمیشہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہی بحران سے نکالا ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی ملک کو ایک بحران نے گھیر لیا تھا، پورا ملک جل رہا تھا، اس وقت جب بی بی شہید کو لہد میں اتارا جا رہا تھا، تب مردِ حر آصف علی زرداری نے ملک کو ٹوٹنے سے بچایا۔
محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت ایسے فرد کے لیے یادوں کی بارات اپنے ساتھ لے کر آتی ہے جس نے ان کے ساتھ اچھا اور برا دونوں وقت گزارے ہیں۔ حقیقت میں ان کی زندگی قومی اور بدلتے عالمی منظر نامے میں رہنمائی فراہم کر سکتی ہے۔
ہم سب کو معلوم ہے کہ دیگر چیزوں کے ساتھ انہوں نے انسانی حقوق، جمہوریت اور خطے میں امن کے لئے انتھک جدوجہد کی، اس کے باوجود کچھ لوگ اب بھی یہ پوچھتے ہیں کہ ان کی شخصیت کی کون سی خوبی ان کی زندگی کے آخری دنوں میں ان کی ترجمانی کرتی ہے۔
میرے نزدیک ان کا حوصلہ اور بہادری ان کی شخصیت کی صحیح عکاسی کرتے ہیں، میں ہمیشہ ان کے حوصلے سے متاثر ہوتی۔ باحوصلہ رہنا ایک ایسی صلاحیت ہے جو بہادری اور جرأت کی صلاحیتوں میں ممتاز مقام رکھتی ہے، یعنی کسی صدمے کے بعد دوبارہ باحوصلہ ہو جانے کی صلاحیت۔
ایک مرتبہ آپ کو ان کے سحر کی تہوں کے اندر جھانک کر دیکھنے کے قابل ہو جانے کے بعد جو چیز زیادہ متوجہ کرتی وہ ان کی زندگی میں بہادری کا عنصر تھا۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد بی بی شہید کو نظر بندی اور جلاوطنی کی سخت تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔
شہید محترمہ نے اپنی 28ویں سالگرہ سکھر جیل میں گزاری، یہ وہ زندگی نہیں تھی جس کی وہ توقع کر رہی تھیں، انہوں نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری اور عدالتی قتل کا صدمہ بھی برداشت کیا، اور پُرعزم ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کی اور مارشل لا کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
عظیم باپ کی عظیم بیٹی نے اپنے دکھوں کو جھٹکتے ہوئے عوام کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور ہمیشہ ثابت قدم رہیں۔ قید کے دوران بجائے اس کے کہ وہ قید تنہائی پر اداس ہوتیں، انہوں نے بڑی بہادری اور عزم سے جیل کی سختیاں کاٹ کر ضیاء حکومت کا سر شرم سے جھکا دیا۔
جیل کی سلاخوں کے پیچھے سخت قید میں یہ حالت تھی کہ انہیں مناسب طبی سہولیات بھی میسر نہیں تھیں، جس کی وجہ سے ان کے ایک کان کی قوت سماعت متاثر ہوئی، اس کے بعد کراچی کی جیل میں گزارا گیا ایک ماہ بھی اتنا ہی سخت تھا۔
بی بی شہید اپنی جدوجہد میں بھی بینظیر تھیں اور زندگی کی آخری سانسوں تک ہر ظالم و جابر آمر کے سامنے ڈٹی رہیں۔ ان کی رگوں میں موجود بھٹو کے خون نے انہیں اپنی راہ سے ہٹنے نہ دیا۔
وہ دہشت گردی کے سامنے اس وقت کھڑی ہوئیں جب پاکستان میں چند ہی لوگ اس مزاحمت کو سمجھ سکے تھے، اپنے آخری عوامی جلسے میں بھی ان کی تقریر مزاحمتی سیاست کی علامت تھی۔ ان کی آخری تقریر پاکستان کے عوام کے مستقبل اور ملک میں امن و ترقی کا ایک مکمل روڈمیپ ہے۔
انہوں نے دہشت گردوں کو اپنا مکا دکھایا جنہوں نے جنت نظیر وادیٔ سوات پر قبضہ کر لیا تھا اور وعدہ کیا کہ وہ سوات میں پاکستانی پرچم لہرائیں گی، انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ 18اکتوبر 2007کو وطن واپسی پر ان کے تاریخی استقبال کے موقع پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد وہ خطرات میں گھری ہیں لیکن یہ بینظیر ہی تھیں جنہوں نے اس چیلنج کے باوجود پاکستان کی اصولی جنگ میں ایک قدم اور آگے بڑھایا۔
بلاول ہاؤس کراچی میں 19اکتوبر کو میں ان چند لوگوں میں شامل تھی جن سے انہوں نے آئندہ کے لائحہ عمل سے متعلق مشورہ کیا، اس وقت انہیں بخوبی علم تھا کہ ان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
اتنے خطرات کے باوجود جنرل مشرف نے انہیں سیکورٹی دینے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ اُسے امید تھی کہ بینظیر بھٹو انتخابی مہم سے علیحدہ ہو جائیں گی لیکن صاف ظاہر ہے کہ جنرل مشرف محترمہ بینظیر بھٹو کو نہیں جانتا تھا۔
ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں جب وہ اپنے خاندان سے ملاقات کرنے دبئی گئیں اور اس دوران جنرل پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی لگا دی تو بہت لوگوں کا خیال تھا کہ محترمہ اب باہر ہی ٹھہر جائیں گی اور جائزہ لیں گی کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ یہ ایک آزادانہ اور منصفانہ مقابلہ ہرگز نہیں تھا۔
ایک مرتبہ پھر وہ ہم میں سے صرف چند لوگوں کو مطلع کرکے پی سی او کے خلاف مزاحمت کے ارادے سے وطن لوٹ آئیں۔ بالآخر 27دسمبر کو دہائیوں سے پیچھا کرتی قاتل سوچ نے محترمہ بینظیر بھٹو کو راولپنڈی کی سڑکوں پر بیدردی اور سنگدلی سے ہم سے چھین لیا مگر ان کا نظریہ اور فلسفہ آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔
یہ بینظیر بھٹو کی شخصیت کا صرف ایک پہلو تھا، آج وہ ہم سب کے دلوں میں زندہ ہیں لیکن ایک بات یقینی ہے کہ اگر آج وہ حیات ہوتیں تو ملک کی سیاست اور پاکستان کے حالات مختلف ہوتے۔ میں امید کرتی ہوں کہ ان کی زندگی سے پاکستانیوں کو بہادری، ہمہ جہتی اور قیادت کے اسباق سیکھنے کا موقع ملے گا۔
اب ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری پر قیادت کی ذمہ داریاں اس طرح عائد ہو گئی ہیں جیسے خود محترمہ شہید پر ہوئی تھیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے سامنے طویل کیریئر ہے اور پاکستان کو بلاول بھٹو زرداری کی اجتماعیت، ہمہ جہتی اور برداشت کی واضح آواز کی ضرورت ہے۔
آج پھر ایک بھٹو پاکستان کو جمہوریت کے سفر پر آگے بڑھانے نکلا ہے، شہید نانا اور شہید ماں کے خواب کی تکمیل میں اس کا ساتھ دیں۔