میکسم گورکی کا قول ہے :’’اگر مقدس حق دنیا کی متجسس نگاہوں سے اوجھل کر دیا جائے تو رحمت ہو اس دیوانے پر جو انسانی دماغ پہ یہ سنہرا خواب طاری کر دے‘‘۔
اور انسانوں کا شاید سب سے زیادہ حق اُن کی عزتِ نفس کے حق کا تسلیم کیا جانا ہے۔ ریٹائرڈ جنرل اسلم بیگ نے امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا کو اسلام آباد کے دھرنوں کی جائے پیدائش قرار دیا ہے۔
ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو، اسلم بیگ اِس قصے میں حب الوطنی کا فرض ادا کرتے ہوئے ، قوم کو قریہ قریہ آگاہ کرنے کے لئے گھر سے باہر نکل کھڑے ہوں۔ پاکستانی عوام مگر اس جائے پیدائش کی دھماکہ خیزی میں مبتلا نہیں، اُنہیں اسلام آباد میں موجود ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان جیسے دو دیوانوں سے زیادہ غرض ہے،
اُن کے سبب اُنہیں پاکستان کے آئین میں موجود اُن کی عزتِ نفس کے مقدس حق سے ایک بار پھر برسوں کے وقفے سے حیرت انگیز عجلت کے ساتھ آگاہی کی نعمت نصیب ہوئی، یہ نعمت ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور بی بی کی شہادت کے بعد ان سے چھین لی گئی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کے تختہ دار پر سرفراز کئے جانے اور بی بی کے مرتبہ شہادت پر فائز ہونے کے بعد اس ’’آئین‘‘ اور اس ’’مقدس حق‘‘ کی یاد تک لوگوں سے اپنے باپ کی وراثت سمجھ کر ہتھیا لی گئی تھی!
ریٹائرڈ جنرل اسلم بیگ کو یاد دہانی کرائی جا سکتی ہےکہ انہوں نے سپریم کورٹ کی طرف سے جونیجو حکومت کی برطرفی پر اس وقت کی حکومت کو ’’واضح رہے سڑک کے ادھر ہم بیٹھے ہیں‘‘ کا سندیسہ بھیجا تھا۔
انہیں ضیاءالحق کے فرزندِ ارجمند کا یہ کہنا بھی یقیناً بھولا نہیں ہوگا ’’میرا والد زندہ ہوتا تو میں دیکھتا، جونیجو حکومت کیسے بحال کی جاتی‘‘۔
واقعات زمین کی چھاتی پہ موجود ہوتے ہیں، اُنہیں آپ ضرور اکھاڑیں لیکن پھر اُن کے آئینے میں اپنے چہرہ کا تعین کرنے پہ بھی تیار رہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے تختہ دار سے معانقے کے 35برس بعد تاریخ ایک بار پھر زندگی کے دریچوں سے اپنی سنہری کرنوں سمیت طلوع ہوتی دکھائی دیتی ہے،
اب پنجاب کا عام آدمی پنجاب کی سڑکوں پہ، عوام کے ٹیکسوں سے لاکھوں روپوں کا پٹرول بھروا کر، بےپروائی اورکروفر کے ساتھ فراٹے بھرتے موٹر سائیکل سوار پولیس محافظ کے دستوں سے یہ پوچھنے پر پوری طرح تیار بیٹھا ہے ’’تم نے مجھے بلا وجہ روک کر گالی کیوں دی؟ دھکا کیوں دیا؟ ٹھڈا کیوں مارا؟ میرے گریبان پہ ہاتھ کیوں ڈالا؟ ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی میں یہی سوال مزدور نے سرمایہ دار سے پوچھا ۔
اسلام آباد کے دھرنے امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا سے درآمد کئے گئے، آپ اس سازش کے منکشف ہونے پہ فی الفور پاکستانی قوم کو مطلع کرنا شروع کر دیں ! عام آدمی پہلے میکسم گورکی کے اس قول پہ سر دھنے گا کہ
’’اگر مقدس حق دنیا کی متجسس نگاہوں سے اوجھل کر دیا جائے تو رحمت ہو اس دیوانے پہ جو انسانی دماغ پہ یہ سنہرا خواب طاری کر دے‘‘ اور دیوانوں کی حیثیت سے اس کو صرف ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان ہی نظر آئیں گے!
ذوالفقار علی بھٹو نے 37برس قبل پاکستان کے عام آدمی کی اسی عزت نفس کے آدرش کا پیغام دیا تھا، اس کی صحیح معنوں میں جانشین صاحبزادی بینظیر بھٹو شہید نے لوگوں کی زندگیوں کے لئے اپنے باپ کے اس سربر آوردہ پیغام کی روایت کا علم بلند کرکے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اپنے لہو سے اپنی گواہی ثبت کی،
چنانچہ ’’صدر‘‘ آصف علی زرداری سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کو معلوم ہو یہ جو سیلاب کے پانیوں میں گھری خوار وزبوں بوڑھی عورتوں نے مصیبت کی ان جان لیوا گھڑیوں میںسب کچھ فراموش کرکے بے ساختہ بلاول کی بلائیں لیں، وہ ذوالفقار علی بھٹو کے تختہ دار سے بہنے والے خون کو اپنے احترام اور دعائوں کا صدقہ دیا تھا۔
بلاول کے آنے پر ان کا واری صدقےہونا اپنے اس عہد کی پاسداری تھی جو اس دھرتی کے غریب باسیوں نے اس جھولتے رسے سے باندھ رکھا ہے !لیکن کیا بلاول کا مطالعہ یا بلاول کے اتالیق اسے ذوالفقار علی بھٹو کے اس نظریاتی اثاثے کا ادراک فراہم کر رہے ہیں؟
کوئی اسے بتائے گا، وہ یاقوت سے تراشہ یونانی دیوتا نہیں، نہ پاکستان کے فرزند کسی کے چرنوں میں جھکنے کے عادی۔ بلاول تو پاکستان میں سینکڑوں ہوں گے، تمہیں قدرت نےعوام کی امانت کا تاج پہنایا ہے،
اس کی حرمت کی برقراری کوئی پھولوں کی سیج نہیں !لیکن لگتا ہے وہ شہدا کے مزاروں کی مجاوری کر کے سودے بازیاں کرنے والوں سے جان نہیں چھڑا پا رہا۔ بلاول نے پاکستان پیپلز پارٹی کو مکمل لیفٹ کی پارٹی بنانے کا مبارک خواب دیکھا اور دکھایا ہے، گڈ!
وہ آج کی پیپلز پارٹی کا فی الحال سن لیں، یہ جماعت ان لوگوں کے نرغے میں ہے جنہوں نے گزشتہ عہد میں اقتدار کی مسند ملنے کے بعد، تھری پیس سوٹ پہن کر اور بیوٹی پارلرز میں گھنٹوں صرف کرکے حلف اٹھائے،
ابھی بی بی کی شہادت کو شاید تین ماہ بھی نہیں گزرے تھے، پھر اکثر نے دیہاڑیوں کے بازار سجائے اور ’’کارپٹ بیگرز‘‘ کہلائے! پنجاب ہی نہیں ، بلاول سندھ بلوچستان اورکے پی تک اپنے نانا کا پیغام لے کر خود جائے۔