گزشتہ برس امریکی خلائی ادارے ناسا نے خلائی شٹل کی طرز پر جدید خلائی جہا ز’’ڈریم چیزر ‘‘ تیار کیا ہے ۔یہ جہاز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس ) تک سامان کی فراہمی کا کام بھی سر انجام دے گا ۔اسے سیر انیو اڈا کمپنی نے تیار کیا ہے ۔
ماہرین کو اُمید ہے کہ 2020 ء تک اس کا پہلا ماڈل خلا میں باآسانی سامان پہنچانے کا کام کر سکے گا ۔یہ ڈریم چیزر جہاز خلائی لیبارٹری تک کم سے کم چھ مرتبہ سامان لے کر جا سکے گا ۔اس کے علاوہ اسپیس ایکس ڈریگن اور آربٹل کمپنی کے سامان کی فر اہمی کا کام بھی کرے گا ۔اس جہا زکی خاص بات یہ ہے کہ یہ لینڈنگ کےقابل ہے اور کسی بھی ائیر پورٹ پر اتر سکتا ہے اور ڈیزائن کی وجہ سے خود کار انداز میں اُڑ بھی سکتا ہے ۔یہ ایک چکر میں 5,500 کلو گرام وزن لے جاسکتا ہے اور واپس آتے ہوئے یہ 3,400 کلو گرام سامان اور کوڑا کر کٹ زمین تک لاسکتا ہے ۔
2019 ء میں امریکی خلائی ادارہ ناسا نےاپنا خلائی جہاز ’’نیو ہو رائزن ‘‘ یعنی ’’اُفق جدید ‘‘ کو خلا میں بھیجا تھا ۔جہاں پر اسے نے پر اسرار سیارچہ ’’الٹیما تھولی ‘‘ کو دریافت کیا ہے ۔الٹیما تھولی کا مطلب ،’’معروف دنیا سے باہر ‘‘ ہے ۔یہ نظام شمسی سے بیرونی کنارے پر موجود ہے ۔ ا س کے پاس سے گزرتے ہوئےنیو ہورائزن کا اس خلائی چٹان سے قریب ترین فاصلہ 2200 میل تھا ۔ماہرین نے جہاز کے ذریعے اس پر اسرار سیارچے کی ساخت ،جغرافیائی حدود ،تصاویر ،سطح کے نقشے اور اردگرد کا درجہ ٔ حرارت بھی معلوم کیا ۔نیو ہورائزن 51.5 ہزار کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے آگے بڑھ رہا تھا ۔الٹیما تھولی کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر سورج کی روشنی انتہائی مدہم ہے او ر اس خطے میں سورج کا در جہ ٔ حرارت 30 سے 40 ڈگری کے در میان میں رہتا ہے ۔
اس پر کوئی کیمیائی عمل بھی نہیں ہو تا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ الٹیما منجمد حالت میں ہے اور یہ کو ئپر بیلٹ میں مکمل طور پر محفوظ ہے ۔ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ الٹیما کاسائز تقریباً 30 کلومیٹرہے ،جس سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ یہ جیولوجیکل انجن کی قسم نہیں ہے ۔علاوہ ازیں اس کی ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ کوئپر بیلٹ میں بہت پرسکون ماحول میں ہے ۔نیو ہورائزن اور زمین کے بیچ واضح فرق 15 واٹ ٹرانسمیٹر کا ہے،تاہم ان کے اعداد وشمار میں فرق ہونے کی وجہ برف کے تودے ہیں ۔ماہرین کو اُمید ہے کہ وہ تمام تصاویر ستمبر 2020 ء تک دوبارہ حاصل کریں گے ۔
گزشتہ سال ماہرین نے لوگوں کو حیرانی میں مبتلا کرنے کے لیے اُڑن موٹر سائیکل متعارف کی ہے ۔ اس سواری کو جیٹ پیک کمپنی نے ڈیزائن کیا ہے اور ’’دی اسپیڈر‘‘ نامی موٹرسائیکل کو دنیا کی پہلی پرواز کرنے والی موٹرسائیکل قرار دیا جاسکتا ہے۔اُڑن موٹر سائیکل کی قیمت تین لاکھ 80 ہزار ڈالر ہے۔ یہ دورانِ پرواز ازخود سیدھی ہوجاتی ہے ،جس کے لیے اسٹیبلائزر اور جائرواسکوپ ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔
یہ موٹرسائیکل جیٹ ٹربائن انجن کی بدولت اڑتی ہے اور زیادہ سے زیادہ 150 میل فی گھنٹےکی رفتار تک پہنچتی ہے۔ دی اسپیڈر مسلسل 20 منٹ تک 15 ہزار فٹ کی بلندی پر محوپرواز رہ سکتی ہے۔ پرواز کے لیے دی اسپیڈر مٹی کا تیل، جیٹ اے اور ڈیزل ایندھن استعمال کرتی ہے۔اسے بنانے والی کمپنی نے مسلسل کئی برس تک اسے مختلف آزمائشوں سے گزارا ہے ،اس میں چار ٹربوجیٹ انجن نصب ہیں۔ پوری گاڑی کا وزن 105 کلوگرام ہے جبکہ 109 کلوگرام وزنی پائلٹ کو لے کر یہ پرواز کرسکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق نیوی گیشن کے لیے 12 انچ کی ٹچ اسکرین لگی ہے۔
سال 2019ء میں فرانس کےسائنس دانوں نے کیڑوں سے متاثر ہوکر روبوٹ مکھی تیار کی ہے ،جس کا وزن صرف 1 کلو گرام ہے اوریہ اپنے وزن سے 5 گنا زیادہ وزن اُٹھا سکتا ہے ۔ماہرین نے اسے ’’ڈینسیکٹ‘‘ (Deansect) کا نام دیا گیا ہے ۔ اس میں مصنوعی پٹھوں کی مدد سے تین ٹانگیں بنائی گئی ہیں جو ایک سیکنڈ میں 400 مرتبہ حرکت کرتی ہیں۔ اس پر پر بال سے بھی باریک مصنوعی پٹھے لگائے گئےہیں جو ارتعاش سے مکھی کو آگے بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔
روبوٹ مکھی اڑتی نہیں بلکہ یہ اونچے نیچے راستوں پر چلتی رہتی ہے۔ روبوٹ مکھی کو نمائشی شے کہنے کی بجائے کئی اہم امور انجام دینے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس میں نصب فوٹوڈائیوڈز آنکھوں کا کردار ادا کرتے ہیں اور مائیکرو کنٹرولر اس کے دماغ کا کام کرتے ہیں۔ماہرین نے اس عجیب و غریب مکھی کو طرح طرح کے ٹیسٹ سے گزارا ہے۔ مکھی کو مکھی اسٹک سے کچلا اور موڑا گیا لیکن پھر بھی اس کو کچھ نہیں ہوا اور یہ اپنا کام کرتی رہی ۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ مکھی خودکار انداز میں بھی کام کرسکتی ہے اور کسی مقررہ راستے پر چلتی رہتی ہے۔
گزشتہ سالوں کی طر ح 2019 ء میں بھی ماہرین نے متعدد روبوٹ متعارف کیے۔یہ ننھا سا چوکور روبوٹ فون کی ایپ سے کنٹرول ہو کر کسی بھی بٹن کو کھول بند کرسکتا ہے ۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے ذریعے ان گنت آلات کو خود کار اور اسمارٹ بنایا جاسکتا ہے ۔ماہرین نے اسے ’’فنگر بوٹ ‘‘کا نام دیا ہے ۔۔ تھری ڈی پرنٹر سے تیارکردہ فنگربوٹ اپنی متحرک انگلی سے ہر سوئچ کھول اور بند کرسکتا ہے۔
ٹائمر کے ذریعے بھی اس کا سوئچ آن ،آف کیا جاسکتا ہے ۔گرچہ اس میں ایسےہارڈویئر یا سافٹ ویئر موجود ہیں جو پورے گھر کو مکمل طور پر خود کار بناسکتے ہیں۔ دوسری جانب یہ بہت کم خرچ بھی ہے۔اسے ایڈاپروکس کمپنی نے تیار کیا ہے۔ فنگر بوٹ کسی بھی سوئچ کو دھکیلنے، کھینچنے اور پلٹنے کا کام بھی کرسکتا ہے۔ اسی طرح ہوم کنٹرول کرنے والے آواز سے کنٹرول ہونے والے سافٹ ویئر مثلاً سِری یا گوگل سے بھی فنگرپرنٹ کو چلایا جاسکتا ہے۔فنگر بوٹ کی بلیو ٹوتھ رینج 50 میٹر ہے لیکن ایک ہارڈویئر کے اضافے سے اس فاصلے کو بڑھا بھی سکتے ہیں۔ اس طرح گھر میں پہنچنےسے پہلے آپ ہیٹر یا ایئرکنڈیشن کو بھی چلاسکتے ہیں۔
سائنس دانوں کو2019ء میں یہ معلوم ہوا تھا کہ سیارہ زحل کے چاند اینسلیڈ ئیس کی بر فیلی سطح کے نیچے ایسے مرکبات موجود ہیں جن میں کاربن پایا جاتا ہے ۔ناساکے ماہرین نے سیارہ جاتی مشن کے لیے ٹائٹن کا انتخاب کیا ہے ۔ایٹمی توانائی سے چلنےوالا یہ روبوٹ سطح پر نہیں چلتا ،اس میں 8 پنکھے نصب کیے گئے ہیں جن کی مدد سے اس نے ٹائٹن کی فضا میںنامیاتی مرکبات اور آثار تلاش کیے۔ٹائٹن ہماری کرہ ٔ ار ض سے 1.4 ارب کلو میٹر دور ہے ،وہاں کی فضا میں میتھین گیس بھری ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ یہاں کے در جہ ٔ حرارت منفی 179 در جے سینٹی گریڈ ہے ۔ناسا نے اس پروجیکٹ کوبھنبھیری یا ڈریگن فلائی کا نام دیا ہے ۔سائنس دانوں کے مطابق ٹائٹن پر ثقلی قوت زمینی قوت کے 0.133 حصے کے برابر ہے اور فضا زمین کے مقابلے میں چار گنا کثیف ہے ۔ٹائٹن پر ندی ،دریا اور سمندر موجود ہیں جو ہائیڈروکاربنز پر مشتمل ہیں ،پھر فرش پر اُنچے نیچے راستے ہیں اور شاید نامیاتی برف بھی ہے ۔ڈریگن فلائی کو 2026 ء میں ٹائٹن کی طر ف بھیجا جائے گا اور 2034 ء تک وہاں اترے گا ۔نیو کلیا ئی قوت کی بدولت اس کا ریڈیو تھر مل جنریٹر کا م کرے گا اور خلائی جہاز کو 36 کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے پرواز کرے گا ۔
ماہرین نے پورے خلائی جہاز کو بچانے کے لیےایک خاص قسم کا میٹریل تیار کیا ہے جو اسے تباہ کرنے والے ماحول سے بچاتا ہے ۔جدید ترین آلات میں ماس اسپیکٹرو میٹر ،گیمارے اور نیو ٹران اسپیکٹر ومیٹر نصب ہیں۔علاوہ ازیں جیو فزکس کے آلات بھی موجود ہیں جو ٹائٹن کے اندر کی خبر گیری کرتے ہیں۔