اب تو وفاقی وزراء بھی بول اٹھے ہیں کہ رانا ثناء اللہ کے خلاف اینٹی نارکوٹکس فورس (ANF) نے ہیروئن اسمگلنگ کا جھوٹا مقدمہ قائم کرکے حکومت کو بدنام کیا۔ ایک وزیر نے کہا کہ جھوٹے مقدمے کا حکومت کیوں دفاع کرے۔
خبروں کے مطابق گزشتہ روز کابینہ کے اجلاس کے دوران وزراء نے ڈی جی اے این ایف پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ مقدمہ اے این ایف نے بنایا جبکہ بدنامی وزیراعظم عمران خان کی ہو رہی ہے۔
وزیر مملکت شہریار آفریدی تک نے یہ کہہ دیا کہ اُنہوں نے تو قسمیں اس لیے اُٹھائیں کہ ڈی جی اے این ایف نے اُنہیں اپنی اور اپنے بچوں کی قسمیں دے دے کر یقین دلایا تھا کہ رانا ثناء اللہ نے ہیروئن اسمگل کی اور رنگے ہاتھوں تمام تر ثبوتوں کے ساتھ پکڑے گئے جبکہ ڈی جی اے این ایف نے کابینہ کو بتایا کہ وہ رانا ثناء اللہ کے خلاف ثبوت پیش کریں گے اور اُنہیں سزا بھی دلوائیں گے۔ ڈی جی اے این ایف کا یہ بھی کہنا تھا کہ مقدمہ سچا ہے۔
جو معاملہ پہلے ہی مشکوک تھا، اب اُس پر وفاقی کابینہ تک نے سوال اٹھا دیے ہیں۔ اس معاملے کو اب اے این ایف اور ٹرائل کورٹ تک نہیں چھوڑا جا سکتا اور نہ ہی ایسا کرنا جائز ہوگا۔ اس معاملے کی فوری طور پر مکمل تحقیق ہونی چاہیے جس کے لیے میری ذاتی رائے میں محترم چیف جسٹس آف پاکستان کو سوموٹو ایکشن لینا چاہیے۔
رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کے موقع پر جو کچھ قسمیں کھا کھا کر شہریار آفریدی اور ڈی جی اے این ایف میجر جنرل عارف ملک نے کہا، کہا گیا تھا کہ اُس کے ثبوت موجود ہیں، وڈیو بھی بنی ہے لیکن نہ تو کچھ عدالت کے سامنے پیش کیا گیا اور نہ ہی عوام کو یہ ثبوت دکھائے گئے۔
معاملہ اتنا مشکوک تھا کہ میڈیا اور سیاست سے تعلق رکھنے والوں نے عمومی طور پر اس کیس کو شک ہی کی نظر سے دیکھا اور بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ نے رانا ثناء اللہ کو ضمانت پر رہا کرتے ہوئے جو کچھ فیصلے میں لکھا وہ حکومت کے لیے یقیناً پریشانی اور ہزیمت کا باعث تھا۔
رانا صاحب نے ضمات پر رہائی کے بعد قرآن پاک ہاتھ میں تھام کر اپنے بے قصور ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بیان دیا کہ اُن پر جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔ رانا صاحب پہلے دن سے حکومت کو چیلنج کر رہے ہیں کہ اگر کوئی وڈیو ہے تو پیش کی جائے۔
رانا صاحب کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ اُن کا خودساختہ اور جھوٹا بیان عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ حقیقت میں اُن سے کسی نے ایک منٹ کی بھی تفتیش نہیں کی۔ اگر وہ غلط کہتے ہیں تو کم از کم تفتیش کی وڈیو تو اے این ایف کے پاس موجود ہو گی۔
لاہور ہائیکورٹ نے بھی سوال اٹھائے کہ کہا گیا کہ رانا ثناء اللہ کا تعلق ایک بڑے ڈرگ نیٹ ورک سے ہے لیکن عدالت کے ساتھ سب کو اس بات پر حیرت ہے کہ اگر واقعی یہ سچ تھا تو رانا صاحب کا جسمانی ریمانڈ کیوں نہ لیا گیا؟ یہ تحقیق کیوں نہ کی گئی کہ اس نیٹ ورک میں اور کون کون شامل ہے اور اُن کی نشاندہی اور اُنہیں پکڑنے کے لیے رانا صاحب سے کوئی تفتیش کیوں نہ کی گئی؟
وہ ہیروئن جو مبینہ طور پر رانا صاحب سے پکڑی گئی تھی اورجس کے بارے میں پہلے بتایا گیا کہ وہ 21کلو تھی اور بعد میں 15کلو دکھائی گئی، رانا صاحب نے کس سے خریدی تھی اور کسے فراہم کی جانا تھی،
اس اہم سوال کے بارے میں بھی اے این ایف کو کیوں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اے این ایف کا کہنا ہے کہ اُس کے پاس گواہ موجود ہیں جو سب کے سب اے این ایف کے اپنے ملازم ہیں۔
اینٹی نارکوٹکس کورٹس کتنی آزاد اور خودمختار ہیں اُس کا اندازہ حنیف عباسی کیس سے لگایا جا سکتا ہے۔
ویسے بھی اگر ٹرائل کورٹ تک اس معاملے کو چھوڑا گیا تو ہو سکتا ہے اس پرسالوں لگ جائیں اور یوں اگر یہ جھوٹا کیس ہے، جو بادی النظر میں دکھائی بھی دے رہا ہے، تو اس جھوٹ کو گھڑنے والے بچ نکلیں گے۔
اس لیے بہتر ہوگا کہ چیف جسٹس صاحب اس معاملے پر سوموٹو لے کر چاہے تو کمیشن کے ذریعے یا کسی دوسرے طریقے سے اس واقعہ کی آزادانہ انکوائری کروا کر سچائی سامنے لائیں۔
اگر رانا ثناء اللہ قصور وار پائے جائیں تو اُنہیں سزا ملنی چاہیے لیکن اگر اے این ایف نے جھوٹا کیس بنایا ہے اور ایک ادارے کے ساتھ ساتھ حکومت کی ساکھ کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے تو ذمہ داروں کی نشاندہی کرکے اُنہیں سخت سزا دی جانی چاہیے۔
جو مبینہ کھیل رانا ثناء اللہ کے ساتھ کھیلا گیاہے، اگر اس کو سختی سے روکا نہ گیا تو کل کو کسی بھی مخالف کے ساتھ یہی ہوگا اور یاد رہے اس کھیل کے نتیجے میں کسی بے قصور کی جان بھی جا سکتی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)