• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خالقِ کائنات نے پاکستان کو انتہائی فیاضی سے انسانی و مادّی وسائل سے نوازا ہے۔ اگر ان وسائل سے کماحقہ‘ فائدہ اٹھایا جائے تو پاکستان تقریباً 8فیصد سالانہ سے ایسی معاشی شرح نمو حاصل کر سکتا ہے جس کے ثمرات میں عوام براہِ راست شریک ہوں۔ مالی سال 2018میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو 5.5فیصد رہی تھی۔ آئی ایم ایف نے 23دسمبر 2019کو جاری کردہ رپورٹ میں کہا ہے کہ آنے والے برسوں میں بھی پاکستانی معیشت مشکلات کا شکار رہے گی اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مالی سال 2021میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو 3فیصد رہے گی جبکہ 2018کے 3.9فیصد کے مقابلے میں مالی سال 2020میں افراطِ زر کی شرح 11.8فیصد رہے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا قرضے کا موجودہ پروگرام پاکستان کیلئے قرضوں کا آخری پروگرام نہیں ہوگا الاّ یہ کہ ٹیکسوں و توانائی کے شعبوں اور افراد کی پیداواری سکت بڑھانے کیلئے بنیادی نوعیت کی اصلاحات کی جائیں۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل تجاویز پیشِ خدمت ہیں:

(1)وفاق اور صوبے ایک مقررہ آمدنی سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر بلا کسی استثنیٰ موثر طورسے ٹیکس لازماً نافذ اور وصول کریں اور ساتھ ہی معیشت کو دستاویزی بنانے کیلئے اقدامات کیے جائیں۔ یہ تجویز تحریک انصاف کے منشور کے مطابق ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17فیصد سے کم کرکے 7.5فیصد مقرر کی جائے اور پیٹرولیم لیوی کو ختم کردیا جائے۔ ان اقدامات سے معیشت کی شرح نمو تیز ہوگی، صنعتوں کی پیداواری لاگت کم ہوگی، برآمدات میں اضافہ ہوگا اور افراط زر میں کمی ہوگی۔(2)پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں یہ قرارداد منظور کریں کہ تعلیم کی مد میں جی ڈی پی کا 5فیصد اور صحت کی مد میں 2.6فیصد لازماً مختص کیا جائے۔ یہ تجویز تحریک انصاف کے منشور کے مطابق ہے۔(3)ٹیکس حکام سے خفیہ رکھی ہوئی آمدنی سے بنائے گئے خطیر رقوم کے اثاثے مختلف شکلوں میں ملک کے اندر موجود ہیں یعنی یہ اثاثے ایسی آمدنی سے بنائے گئے تھے جن پر انکم ٹیکس ادا نہیں کیا گیا۔ ان اثاثوں کی تفصیلات ریکارڈ میں موجود ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ 2019کی ٹیکس ایمنسٹی کی میعاد کے خاتمے کے بعد ان افراد کے خلاف کریک ڈائون کیا جائے گا جنہوں نے اس اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ بدقسمتی سے طاقتور طبقوں کے دبائو کی وجہ سے یہ کام تکلیف دہ حد تک سست روی کا شکار ہے۔(4)بیرونی ممالک سے آنے والی ترسیلات سے جاری حسابات کے خسارے کو کم کرنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ معیشت میں فوری طورپر اسٹرکچرل اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ اس عمل پر پابندی لگائی جائے۔ اگر ان ترسیلات کا بڑا حصہ سرمایہ کاری کی طرف منتقل کیا جا سکے تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔(5)ملکی برآمدات بڑھانے کیلئے صنعتوں کی پیداواری لاگت کم کرنے کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کے شعبے کی برآمدات بڑھانے کو خصوصی اہمیت دی جائے۔(6)کھلی منڈی سے خریدی ہوئی بیرونی کرنسی کو بینکوں کے کھاتوں کے ذریعے اسٹیٹ بینک کی پیشگی منظوری کے بغیر ملک سے باہر بھیجنے پر پابندی لگا دی جائے۔ تعلیم و علاج معالجے کیلئے بھیجی جانے والی رقوم کو استثنیٰ قرار دیا جا سکتا ہے۔(7)نیب لوٹی ہوئی دولت کی وصولی اور اپنی جانب سے قومی خزانے میں جمع کرائی جانے والی رقوم کے غلط اعداد وشمار اب بھی پیش کررہا ہے۔ اس ضمن میں اور سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کے ریمارکس کی روشنی میں نیب کا احتساب کیا جائے اور اس ادارے کی تنظیم نو کی جائے۔(8)ملکی و بیرونی سرمایہ کاری میں توازن رکھا جائے اور صرف معیاری سرمایہ کاری ہی حاصل کرنے کی کوششیں کی جائیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر چین سے درخواست کی جائے کہ بھاشا ڈیم کی تعمیر کو مناسب شرائط پر سی پیک کا حصہ بنائے۔(9)جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی، مجموعی سرمایہ کاری اور داخلی بچتوں میں اضافے کیلئے موثر حکمت عملی وضع کی جائے۔(10)ٹیکسوں و توانائی کے شعبوں میں اصلاحات کے ساتھ افراد کی ’’پیداواریت‘‘ یعنی پیداواری سکت بڑھانے کیلئے حکمت ِ عملی وضع کی جائے۔ معیاری تعلیم، ووکیشنل ٹریننگ اور تحقیق و ترقی کے شعبوں کو خصوصی اہمیت دی جائے۔(11) ریاست کے تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر اپنے فرائض منصبی ادا کرنا ہونگے۔ اسمگلنگ، ہنڈی کے کاروبار، ملک سے سرمائے کا فرار، اوور انوائسنگ، انڈر انوائسنگ، منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ روکنے کیلئے مزید موثر اقدامات اٹھائے جائیں۔(12) فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے تحفظات کو پاکستان نے اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا جتنے وہ مستحق تھے۔ اگر ان کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو پاکستان 2020میں بھی گرے لسٹ میں ہی رہے گا۔ (13) اسٹیٹ بینک کو یہ ہدایت دی جائے کہ وہ سودی بینکوں میں نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر کھولے گئے کھاتوں پر دی جانے والی شرح منافع کو شرح سود سے منسلک کرنے کے بجائے بینکوں کے منافع سے منسلک کرے کیونکہ اسٹیٹ بینک کے موجودہ احکامات بینکنگ کمپنیز آرڈیننس 1962کی شق 26الف (4)اور 40ایف سے متصادم ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وفاقی شرح عدالت بھی اس کا نوٹس لے۔(14) اسٹیٹ بینک کو تیزی سے شرح سود میں کمی کرنا ہوگی اور بینکوں کے ’’اسپریڈ‘‘ کو کم کرنا ہوگا۔(15) مائیکرو فنانس اسکیم کے تحت دیئے جانے والے قرضوں اور سرمائے کی فراہمی کیلئے ’’ایکویٹی‘‘ کی مد میں درکار رقوم بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور زکوٰۃ کی رقوم سے فراہم کی جا سکتی ہیں۔ اس ضمن میں حکمت عملی کا خاکہ ہم نے 24مئی 2018کے روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے کالم میں پیش کیا تھا۔

تازہ ترین