• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جدید مغربی تہذیب کی ابتدا تجارتی سرگرمیوں سے شروع ہوئی تھی، اسی لئے وہ پیشہ ورانہ ضرورتوں کے مطابق ہر چیز کا حساب کتاب تحریر کی شکل میں محفوظ کرنے کے عادی ہو گئے۔ 

یہی ان کے علم و فضل کی بنیاد بن گیا۔ چنانچہ اب بھی ان کا میڈیا اختتامِ سال پر زندگی کے ہر پہلو کا حساب پیش کرتا رہتا ہے۔ اس سال بھی کئی طرح کے اعداد و شمار پیش کئے گئے لیکن ہمیں عالمی فلمی کاروبار کے بارے میں دیا گیا خلاصہ دلچسپ ترین محسوس ہوا۔ 

اس طرح کی دلچسپی کے پس منظر میں یہ بھی تھا کہ چند ماہ پیشتر موجودہ پاکستان کی اہم ہستی نے بند کمرے میں درجنوں صحافیوں سےکہا تھا کہ پاکستان چین کے ماڈل کو اپناتے ہوئے ملک میں ’لبرل حلقوں‘ سے آخری جنگ لڑ رہا ہے۔ بقول ان کے، اب ملک میں یا تو ہم رہیں گے یا لبرلز، جو بیرونی طاقتوں کے آلہ کار ہوتے ہوئے پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔

اسی لئے ہمارے لئے چین کا ماڈل اہم ہو گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے حکمران کس چینی ماڈل کو اپنا رہے ہیں، وہ جو جہانِ رنگ و بو یعنی مادی دنیا میں اپنا اظہار کر رہا ہے یا وہ خیالی ہیولا جو ان کے ذہنوں نے اپنی برتری کو قائم رکھنے کے لئے متشکل کر رکھا ہے؟

امریکی میڈیا میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2019ء میں چین کی اپنے ملک اور اپنی زبان میں بنی ہوئی فلموں نے دنیا کے سب سے بڑے فلم پروڈکشن کے مرکز ہالی وڈ کے قریب قریب (بہت معمولی کم) کاروبار کیا ہے۔ 

چینی فلموں کا کاروبار دنیا کی چھ بڑی فلمی منڈیوں کی اجتماعی آمدنی سے بھی زیادہ تھا۔ گویا اب چین فلمی صنعت کے میدان میں بھی ساری دنیا سے بہت زیادہ آگے نکل جائے گا۔ 

اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ امریکہ جو چاہے کر لے، چین کی معیشت کو اولین حیثیت پر پہنچنے سے روک نہیں سکتا۔ اس کے سیاسی اور سماجی اثرات بھی ہوں گے جن کو سامنے آنے کے لئے کچھ دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ 

ویسے تو چین براعظم افریقہ کا سب سے بڑا سرمایہ کار ملک ہے اور اس کو بھی اعشاریے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا تھا لیکن ہم نے فلمی صنعت کے تقابلی مطالعہ کو اس لئے ترجیح دی کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چین صرف اشیائے ضرورت اور ٹیکنالوجی کی پیداوار میں ہی اپنی اجارہ داری قائم نہیں کر رہا۔

وہ سماجی اور تخلیقی فنون میں بھی مثالی ترقی کر رہا ہے۔ فلمی صنعت میں تاریخی ترقی سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ چینی صرف روبوٹوں کی طرح چیزیں بنانے میں ہی نہیں بلکہ تصورات پر مبنی تخلیقات کے شعبے میں بھی تیز تر پیش قدمی کر رہے ہیں۔ چین کے فلمی شعبے کے ذکر کو اس لئے بھی مثال بنایا گیا ہے چونکہ اس میں سرمایے سے زیادہ ذہنی تخلیقی ہنرمندی کو دخل ہے۔ 

پاکستان بھی آبادی اور وسیع تر درمیانے طبقے کی موجودگی کے لحاظ سے دنیا کی بہت بڑی فلمی منڈی ہے لیکن نہ سرمایہ کار اس طرف آنا چاہتا ہے اور نہ ہی ذہنی تخلیقاتی عمل کو پنپنے کے لئے سماجی کشادگی مہیا ہے۔ 

بلکہ پاکستان تو آج سے ساٹھ سال پہلے دنیا کی فلم انڈسٹری میں اپنا مقام رکھتا تھا، ہر ہفتے دو چار فلمیں ریلیز ہوتی تھیں۔ اس لئے پاکستان تو ترقی معکوس کی سب سے بڑی مثال ہے جو بلندیوں سے نیچے لڑھکا ہے۔

پاکستان میں سرمایہ کاری کی کیفیت تو یہ ہے کہ معمولی سے معمولی چیزوں کی پیداوار میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ایسا ہو بھی کیوں جب رئیل اسٹیٹ میں بیٹھے بٹھائے سال میں پیسے دگنے ہو جاتے ہیں اور حکومتی قرضوں کے بانڈ دس سے پندرہ فیصد آمدنی دے رہے ہوں۔ 

کسی بھی صنعت میں سرمایہ کاری کے لئے بہت سے جھنجھٹ کرنا پڑتے ہیں، کئی سال منافع کیلئے انتظار کرنا پڑتا ہے اور ناکامی کا امکان بھی بدرجہ اتم موجود رہتا ہے۔ اسلئے پاکستان میں محنتی سرمایہ کار ختم ہو چکا ہے اور اب بیٹھے بٹھائے نوٹ چھاپنے کے انبوہِ کثیر نے دولت پر قبضہ کر لیا ہے۔ 

اس طرح کے معاشی کلچر کی موجودگی میں چین کا ماڈل کیسے اپنایا جائے کیونکہ وہاں تو اب بھی ہوشیار لوگ مالی و ذہنی سرمائے اور محنت سے امیر بن رہے ہیں۔ پاکستان میں سرمایہ کار ی کے کلچر کے خاتمے کے ساتھ ساتھ سماجی کشادگی بھی ناپید ہو چکی ہے۔ 

چین میں سیاسی سطح پر تو کیمونسٹ پارٹی کی اجارہ داری قائم ہے لیکن سماجی معاملات میں حکومتی دخل کا کوئی تصور نہیں ہے۔ حکومت کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے کہ کوئی کیا کھاتا پیتا ہے، کس سے کون ملتا ہے یا عشق لڑاتا ہے۔ چین نے سیاسی اداروں کی مخصوص تشکیل کے علاوہ جدید دور کے تمام سماجی تقاضوں کو اپنا طرزِ زندگی بنا لیا ہے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ آبادی کے جو حصے صنعتی کلچر سے پسماندہ رہ گئے ہیں، ان کو بزور طاقت آج کی دنیا میں لانے کے لئے شاید بیجا سختیاں کر رہا ہے۔ لیکن یہ چین کی سیاسی روایت بن چکی ہے۔ 

مائوزے تنگ نے کلچرل انقلاب کے تحت جاگیرداری سماجی اقدار کا بزور طاقت خاتمہ کر دیا تھا۔ اسی لئے جب چین صنعتی میدان میں داخل ہوا تو اس کو کسی سماجی ردعمل کا سامنا نہیں تھا، وہ بلا روک ٹوک آگے بڑھتا چلا گیا۔ غلط یا صحیح چینی مائوزے تنگ کے اسی ماڈل کو (جو ہر چینی پر نافذ ہوا) اب مسلمان آبادیوں پر آزما رہے ہیں۔ 

تاریخ اس کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ کرے گی۔ پاکستان میں زمینی سطح پر تو سب کچھ تبدیل ہو رہا ہے، ہو چکا ہے لیکن ریاست اور اس کے پسندیدہ ادارے جاگیر داری دور کی بدترین سماجی پابندیوں کو قائم رکھنے پر مُصر ہیں۔ 

اب جب معاشرہ مشینی دور میں داخل ہو چکا ہے تو اس کے سماجی تقاضے بھی ہیں جن کو زیر زمین رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ فلم اور ذہنی تخلیق نئے زمانوں کی فکری سرحدوں کے سراغ لگانے اور ان کو پیش کرنے سے ترتیب پاتی ہے۔ 

نیا معاشرہ پرانے سماجی نظام کو پیچھے دھکیل کر سامنے آتا ہے اور اگر اس عمل کو روکا جائے تو ذہن گندے پانی کے جوہڑ کی طرح ہو جاتے ہیں۔ غالباً چین نے سیاسی پابندیوں کے باوجود ذہنی پراگندگی کو پیدا ہونے سے روکنے کیلئے سماجی کشادگی کو بنیادی قدر بنا لیا ہے۔

اس سیاق و سباق میں پاکستان کے حکمران طبقے کا رویہ چین کے ماڈل کے بالکل الٹ ہے۔ چین زمانہ جدید کو ہر جگہ موقع فراہم کر رہا ہے (بلکہ کچھ جگہوں پر ٹھونس رہا ہے) اور پاکستان عہدِ گزشتہ کی باسی اقدار کی حفاطت کے لئے سختیاں کر رہا ہے۔ 

پاکستان کے حکمرانوں کا خیال ہے کہ چین نے سیاسی کنٹرول کے ذریعے ترقی کی ہے لیکن وہ یہ نظر انداز کر رہے ہیں کہ چین نے زیادہ تر سختیاں پرانے جاگیرداری نظام کو ختم کرنے کے لئے کی ہیں جبکہ پاکستان میں اس کے الٹ ہو رہا ہے۔ 

اسی لئے چین ہر سال آگے جا رہا ہے اور پاکستان ہر سال دو قدم مزید پیچھے چلا جاتا ہے۔

تازہ ترین