چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس محمد افتخار چوہدری نے کہا ہے کہ قومی عدالتی پالیسی کے نفاذ کے بعد زیر التواءمقدمات کی تعداد غیر معمولی حد تک کم ہوئی ہے۔ آئین کو تمام قوانین کی ماں تصور کیا جاتا ہے۔ معاشی، معاشرتی اور سیاسی مراتب سب قانونی کی نظر میں برابر ہیں۔ ملک کی تمام عدلتیں قانون کی حکمرانی کی علمبردار ہیں۔ ڈسٹرکٹ ججوں کو وکلائ، سائلین اور معاون اہلکاروں سے بھی برتاﺅ کرتے ہوئے پرسکون رہنا اور تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور غصے کو قابو میں رکھنا چاہئے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں آل پاکستان ایڈیشنل اینڈ سیشنز ججز کے سات روزہ تجدیدانصاف کورس کی تقریب سے تقسیم اسناد کے موقع پر کیا اور کہا کہ ایک جج کو ہمیشہ اپنے فرائض امانت کے طور پر سرانجام دیتے ہوئے غیر جانبدار رہنا چاہئے کیونکہ عدل اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے۔
ماہرین عمرانیات نے ریاست کومعرض وجود میں آنے اور معاشرے کی تشکیل کے بعد معاشرے کے ہر فرد کو بلا امتیاز رنگ و نسل انصاف کی فراہمی ریاست کی اولین ذمہ داری قرار دیا ہے اور معاشرے کی سلامتی اور بقاءکے لئے اسے خشت اول کا درجہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ انصاف کی بلاامتیاز فراہمی کے بغیر ریاست کے وجود کی بقاءکا تصور اپنا وجود کھو بیٹھتا ہے۔ اس حوالے سے سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول قیامت تک ہر فرد معاشرہ اور حکومت کے لئے ایک رہنما اصول کا درجہ رکھتا ہے کہ” ریاست کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتی ہے ظلم کے ساتھ نہیں“ چنانچہ ظہور اسلام سے قبل ایران کا ایک حکمران نوشیرواں عادل ہر شہری کو بلا امتیاز رنگ و نسل انصاف کی فراہمی کے لئے زبردست شہرت کا مالک تھا اور شہر بغداد اس کے نام پر آباد ہوا ۔اس کے دور میں وہ اسی جگہ عدالت لگا کر لوگوں سے ان کی شکایات سنتا اور انہیں انصاف فراہم کرتا چنانچہ وہ اسی کردار کے حوالے سے آج بھی نوشیرواں عادل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور بغداد شہر اس وقت باغ داد کہلاتا تھا جو ایک خوشنما باغ کی صورت میں نوشیرواں کی عدالت کی آماجگاہ تھا پھر اسی حوالے سے اسے بغداد کا نام دیا گیا۔ہر مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے میں انصاف کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب جرمنی نے برطانیہ کو بری طرح اپنا ہدف بنایا اور جنگی طیاروں کے ذریعے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی تو ایک موقع پر ملک بھر کے وکلاءاور عوامی نمائندوں نے ایک احتجاجی ریلی کی صورت میں اس وقت کے وزیر اعظم سرونسٹن چرچل کی رہائش گاہ کے باہر زبردست مظاہرہ کیا اور جنگی طیاروں کی تباہ کاریوں کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ سرونسٹن چرچل نے رہائش گاہ سے باہر آکر احتجاج کرنے والوں سے خطاب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ” کیا لوگوں کو عدالتوں سے انصاف مل رہا ہے“، یہ بے موقع محل ایک استفسار تھا لیکن مظاہرین نے اس کا مثبت جواب دیا اور کہا کہ ”ہاں ہر شہری کو عدالتوں سے انصاف مل رہا ہے“ اس پر سرونسٹن چرچل نے کہا کہ پھر آپ مطمئن رہیں کامیابی ہمارا مقدر ہے۔
دنیا کے ہر ملک میں شہریوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے جہاں آئین قانون میں ترامیم کا عمل صدیوں سے جاری ہے اور آج بھی جاری ہے وہاں اسلام نے امت مسلمہ کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک ایسا رہنما اصول فراہم کیا ہے جس میں کسی ردو بدل یا ترمیم و تنسیخ کی کوئی گنجائش نہیں، اس لئے کہ ہر انسان کو پیدائش سے لے کر لحد میں اترنے تک انصاف کی فراہمی کی ایک ٹھوس اور غیر متزلزل ضمانت فراہم کرنا ہے چنانچہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ
” انصاف کرو یہ تمہیں تقویٰ کے قریب لے جائیگا“۔
لفظ تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان کانٹے دار جھاڑیوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے اس طرح قدم اٹھائے کہ وہ زخمی ہو اور نہ ہی اس کے زیر ناف لباس کا کوئی حصہ ان کانٹوں میں الجھنے پائے بلکہ وہ مکمل حفاظت کے ساتھ کانٹے دار راستے سے گزر جائے۔ اس اصول پر عملدرآمد کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر قریش کی ایک باوقار خاتون چوری کرتے ہوئے پکڑی گئی چنانچہ اس نے حضور نبی کریمکے سامنے اعتراف جرم بھی کرلیا تو آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا جو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق تھا، اس موقع پر بعض صحابہ کرامؓ نے قبیلہ قریش کے وقار کے پیش نظر حضور کریم کو اس خاتون کو معاف کرنے کا عندیہ دیا تو آپ نے فرمایا” قسم ہے خدا کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر محمد کی بیٹی بھی یہ حرکت کرتی تو میں اسے بھی معاف نہ کرتا اور اسے یہی سزا دیتا“۔اس سے اسلام میں انصاف کی فراہمی کے لئے دئیے گئے اصولوں پر عملدرآمد کی ضرورت اور اہمیت کا احساس واضح طور پر سامنے آتا ہے۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے دور میں ایک قاضی کو اس کے عہدے سے اس لئے معطل کردیا کہ اس نے فرائض کی ادائیگی کے دوران حضرت عمرؓ کے احترام کو مقدم سمجھا اور اپنی نشست سے اٹھ کر انہیں سلام کیا۔ حضرت عمرؓ نے اس کے اس فعل کو اس کے منصب کے خلاف قرار دے کر اس کے خلاف ایک تادیبی اقدام کیا جو اس کے محاسبے کے زمرے میں آتا ہے۔
ایک مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا اونٹ اس وقت گم ہوگیا جب آپ مسجد میں نماز ادا کرنے میں مصروف تھے۔ ایک یہودی نے آپ کا وہ اونٹ چرالیا۔ حضرت اما م حسن ؓ نے اسے اونٹ لے جاتے ہوئے دیکھا جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نماز ادا کرنے کے بعد مسجد سے باہر آئے تو اونٹ غائب تھا۔ حضرت امام حسنؓ نے انہیں آگاہ کیا اور یہودی کو پکڑ کر اونٹ بھی واپس لے آئے۔ حضرت علی ؓ نے اس یہودی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا ،قاضی نے شہادت طلب کی تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت امام حسنؓ کوبطور گواہ پیش کرنا چاہا تو قاضی نے یہ کہہ کر گواہی مسترد کردی کہ باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی قابل قبول نہیں۔ اس پر حضرت علیؓ نے مقدمہ واپس لے لیا تو وہ یہودی اسلام کے نظام انصاف اور عدلیہ کے کردار سے ا س درجہ متاثر ہوا کہ اس نے اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے اسلام قبول کرلیا۔ اس پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اسے معاف کردیا اور اونٹ بھی اس کے حوالے کردیا۔امر واقعہ یہ ہے کہ نظام خلافت میں خلفائے راشدین نے انصاف کی فراہمی کی ایسی مثالیں قائم کیں جو آج بھی پوری انسانیت کے لئے شمع ہدایت کا درجہ رکھتی ہیں اور اگر امت مسلمہ آج بھی عدل و انصاف کی فراہمی کے لئے اسلامی تعلیمات کو رہنما اصول کے طور پر اختیارکرے تو یہ نظام خلافت کا احیاءاور قوری انسانیت کے لئے ایک قابل تقلید مثال ثابت ہوگا ۔جب تک مسلمان اور اسلام سیاسی بالا دستی اور عظمت کی بلندیوں پر فائز رہے انہوں نے انصاف کی شمع کو اس طرح روشن رکھا کہ پوری انسانیت اس کے حق میں تحسین و آفرین کے نعرے بلند کرتی رہی لیکن جب قول و فعل کے تضاد نے انہیں زوال و انحطاط سے دوچار کیا تو انصاف کا دامن بھی ان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا جو ایک قومی المیہ ہے اور اس کا مداوا کرنا آج پوری امت مسلمہ حکمرانوں اور تمام سیاسی و مذہبی قوتوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے جو امت کو زوال و انحطاط سے نکال کر عظمت کی بلندیوں پر فائز کرسکتی ہے۔