یہ 1955ء کا ذکر ہے، جب ریڈیو پاکستان لاہور پر گلوکارہ منور سلطانہ نے شاعر مشرق علامہ اقبال کی دلوں کو مسخر کرنے والی دعائیہ نظم ’’لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری‘‘ کو اپنی پرتاثیر آواز میں ریکارڈ کروائی،اس بہترین اور یادگار نظم کی دُھن جس موسیقار نے ترتیب دی، وہ طفیل فاروقی تھے۔
یہ نام آج کی نئی نسل کے لیے بالکل اجنبی اور بھولا بسرا ہے، حالاں کہ اپنے دور میں اس موسیقار نے فلمی اور غیر فلمی کے لیے ایسے خُوب صورت اور مقبول گیت کمپوز کیے، جو آج بھی سنے جائیں تو کانوں کو بھلے لگتے ہیں۔ایک زمانے میں جیسے ہی عید کا چاند نظر آنے کا سرکاری اعلان ریڈیو سے ہوا کرتا تھا تو اس کے ساتھ ہی ایک نغمہ کراچی سے لاہور اور خیبر تک ہوا کے دوش کے ساتھ عید کے چاند اور مبارک باد کا پیغام دیتے ہوئے سنائی دیتا تھا، جس کے بول یوں تھے کہ ’’چن چن دے سامنے آگیا میں دواں دے صدقے جاراں سوہنیو عید مبارک‘‘ اس گانے کو نذیر بیگم اور مالا نے گایا تھا۔ فلم پگڑی سنبھال جٹا کے لیے جو 1968ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ طفیل فاروقی کا تخلیق کردہ یہ گیت جب بھی سنائی دیتا ہے، گویا خوشیوں اور شادمانی کی نوید بن کر انسانی سماعتوں محظوظ کرتا ہے۔
ان کا پورا نام محمد طفیل فاروقی تھا۔ 1918ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم رنگ پورہ میں واقع ایک ہائی اسکول سے حاصل کی۔ ان کے والد اپنے دور کے معروف سرودنواز تھے، جن کا تعلق موسیقی کے ایک نامور گھرانے سے تھا۔ طفیل فاروقی نے فنی کیریئر کا آغاز آل انڈیا ریڈیو لاہور سے کیا۔ ریڈیو پر صدا کاری کے ساتھ وہ نغمات کی موسیقی بھی دیتے تھے۔ 1945ء میں وہ ریڈیو کو خیرباد کہہ کر فلمی دنیا سے منسلک ہوگئے۔ شکل و صورت سے بے حد وجیہہ شکل تھے۔ وہ بالکل فلم کے ہیرو معلوم ہوتے تھے۔
ان کے حسن اور مردانہ وجاہت پر ایک سراپا حسن ہیرا بائی لاہور والی عاشق ہوگئی تھیں۔ اس دور میں ان کے چرچے اور محبت کے افسانے عام تھے۔فلمی موسیقی کے لیے وہ بمبئی چلے گئے۔ جہاں انہیں دو فلمیں سونا چاندی اور دیکھو جی کی موسیقی مرتب کرنے کو ملیں۔ فلم ’’دیکھو جی‘‘ میں انہوں نے شمشاد بیگم کی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کروایا، جو اس زمانے میں بے حد مقبول ہوا جس کے بول تھے ’’جھمکا گرا رے بریلی کے باجار میں‘‘ یہ فلم 1947ء میں ریلیز ہوئی تھی۔
اس مقبول گیت کو موسیقار مدھن موہن نے فلم ’’میرا سایہ‘‘ میں تھوڑی سی تبدیلی کرکے لتا جی کی آواز میں ریکارڈ کروایا، جس کے بول یہی تھے ’’جھمکا گرا رے بریلی کے باجار میں‘‘ موسیقار منظور اشرف نے شباب کیرانوی کی فلم ماں کے آنسو میں اس دھن کو کاپی کر کے بریلی کی جگہ لفظ کراچی استعمال کیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد وہ اپنے آبائی شہر لاہور آگئے اور 1953ء تک انہوں نے کسی فلم کے لیے میوزک نہیں دیا۔ اس دوران وہ صرف لاہور ریڈیو اسٹیشن پر بہ طور موسیقار کام کرتے رہے۔انہوں نے اپنے دور کی مشہور گلوکارہ پکھراج پپو سے شادی کرلی۔ مگر یہ شادی زیادہ عرصے نہ چلی۔ 1953ء میں انہوں نے پہلی بار پاکستانی فلم برکھا کی موسیقی سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔
اس کے بعد انہوں نے جن اردو فلموں کا میوزک دیا، ان میں مجرم، نذرانہ، وحشی، کھل جا سِم سِم، مظلوم، اونچے محل، میں نے کیا جرم کیا، کون اپنا کون پرایا کے نام شامل ہیں۔ بہ طور موسیقار پہلی پنجابی فلم بودی شاہ تھی، جو 1959ء میں ریلیز ہوئی تھی۔
بہروپیا، مفت بر، چوہدری، چوڑیاں، من موجی نامی پنجابی فلموں میں ان کے میوزک کو پسند کیا گیا۔ اور پھر انہوں نے پنجابی فلموں میں ہی موسیقی دی۔ ان کی موسیقی سے آراستہ دیگر پنجابی فلموں میں ماجھے دی جٹی، سورما، مقابلہ، پگڑی سنبھال جٹا، چن چودھویں دا، اوکھا جٹ، پنجھی تے پردیسی، شیراں دے پتر شیر، ویر پیارا، پتھر تے لیک، جگو، حد بندی، بہادر کسان، جوڑ جواناں دا،پٹولا، بھائی بھائی، ظلم کدی نئیں پھلتا، پیشہ ور بدمعاش، زندہ باد، امیر تے غریب اور آخری فلم کمانڈر شامل ہیں، جو 1984ء میں ریلیز ہوئی۔ طفیل فاروقی نے فن موسیقی میں زیادہ تر کلاسیکی موسیقی سے فیض حاصل کیا۔
ان کے بنائے گئے نغمات میں یہ رنگ جابجا محسوس کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی طرزیں زیادہ تر عوامی حلقوں کے مقابلے میں کلاسیکی موسیقی سننے والوں میں زیادہ دل چسپی کا باعث بنیں۔ ایمن، بھیرویں، پہاڑی اور راگ بہاگ سے وہ زیادہ متاثر تھے۔ ان کے گیتوں میں بانسری اور ڈھولک کا استعمال نہایت خوب صورتی سے ہوا ہے۔
ان کا بنایا ہوا نورجہاں کی آواز میں یہ گانا ’’ربا امیدے نالوں موت سکھالی و چھورا مکے سجناں دا‘‘ بہترین مثال ہے۔ انتقال سے کچھ عرصہ قبل وہ شوگر کے مرض میں مبتلا ہوگئے اور پھر 25مارچ 1988ء کو رضائے الٰہی سے انتقال کرگئے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے آمین۔