• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ششم کلاس کی بات ہے،اسکول میں میرا دوسرا یا تیسرا دن ہوگا ،نیا اسکول تھا اور دوست بھی کچھ زیادہ نہیں تھے ، جب اچانک بریک میں ایک لڑکا ہمارا لنچ لے کر بھاگ گیا اور ہم اس کا منہ تکتے رہ گئے اور کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے ۔

پھر تو روز ہی یہی ہونے لگا کہ بڑی کلاس کے لڑکے آتے اور نئے آنے والے بچوں کا لنچ لے کر رفو چکر ہوجاتے، اور ہم اس کی شکایت بھی کسی سے نہیں کرتے تھے ، مگر ہم سے ایک کلا س سینئر یعنی سیون کلاس میں ایک لڑکا ایسا بھی پڑھتا تھا ، جو بغیر کسی خوف اور خطرے کے ہر کسی سے جھگڑ پڑتا تھا اور اس کے سامنے بڑے سے بڑا بھی آجائے وہ فوراً اس سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاتا تھا ۔

ایک دن یہ ہوا کہ وہ لڑکا ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اب اگر کوئی تم لوگوں سے لنچ چھین کر جائے تو مجھے بتانا میں دیکھ لوں گا انہیں ۔

ہم نے کہا بھائی ہم جو نیئر ہیں اور چھوٹے بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تو کہنے لگا کہ بھائی تم ٹینشن نہیں لو میں سب سنبھال لوں گا اور میرے بڑے بھائی بھی میٹرک کلاس میں پڑھتے ہیں اگر ضرورت پڑی تو انہیں بھی بلالیں گے اور پھر ایک دن وہ اکیلا ہی ان تمام لڑکوں سے لڑ پڑ ا اس وقت ہم نے دیکھا کہ بڑی ہی جراتمندی و بہادری کے ساتھ اس نے اکیلے ان کا مقابلہ کیا اور انہیں کسی حد تک پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ۔

یہ دیکھ کر ہمیں بھی کچھ ہمت ہوئی اور پھر ہم نے بھی اس لڑکے کا ساتھ دینے کا ارادہ کیا اور ہر جگہ لڑائی میں اس کے ساتھ ساتھ رہنے لگے جس سے ہمیں دو فائدے ہوئے ایک تو ہمارے دوست کی دہشت میں اضافہ ہوتا گیا دوسرا ہمیں بھی لڑنا آگیا جو کہ پہلے نہیں آتا تھا ۔

خیر وقت گزرتا گیا اور ہم اللہ اللہ کرکے میٹرک میں آگئے اور ہمارا وہ دوست جو ہم سے ایک سال سینئر تھا وہ میٹرک کرکے اسکول چھوڑ  گیا، مگر جاتے جاتے زندگی کا ایک اہم سبق دے گیا، وہ تھا کہ کبھی بھی کسی کمزور کے ساتھ زیادتی نہیں کرنا اور طاقتور کے مقابلے میں کمزور کا ساتھ دینا اسی کا نام بہادری ہے اور یہی شیروں کی زندگی کا اصول۔

ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اسکول میں سب سے زیادہ فائٹ کرنے والا یہ لڑکا آگے جاکر اسپیشل کمانڈو فورس کا حصہ بنے گا اور ایک دن اس دھرتی کے لیے اپنی جان بھی قربان کردے گا ۔

2008 میں ہم نے میٹرک کیا مگر اس سے ایک سال قبل ہمارا وہ دوست اسکول سے پاس آئوٹ ہو کر جاچکا تھا مگر ہمیں کیا معلوم تھا ہم سے بچھڑ کر جانیوالا یہ دوست دوسروں کے لیے ہمیشہ لڑنے والا ہمارا دوست کچھ ہی عرصے بعد اس فانی دنیا کو  چھوڑ کر چلا جائے گا۔

ہوا کچھ یوں کہ جب ہم تمام دوستوں نے میٹرک کیا تو اس وعدے کے ساتھ اسکول سے رخصت ہوئے کہ روزانہ ملا کریں گے اور یاروں کی محفلیں سجایا کریں گے مگر پھر کچھ ہی عرصے بعد سب کے سب اپنی اپنی مصروفیت میں لگ گئے اور کسی کو کسی کی خبر نہ رہی ۔

پھر ایک دن2011 میں خبر ملی کہ وہی لڑکا جو ہر وقت ہماری مدد کے لیے اسکول میں موجود ہوتا تھا وہ سندھ پولیس کی اسپیشل کمانڈو فورس جوائن کر چکا ہے اور اب بڑی بڑی چھاپہ مار کارروائیوں میں بڑ ے بڑے مجرموں کو پکڑتا پھر رہاہے، خیر ہمیں کیا پتا تھا اس کا یہ ایڈونچر کا شوق اسے جنت کی طرف لے جائے گا، صرف تین سال کی اس کی سروس ہوئی تھی اور پھر وہ دن آگیا جو تقدیر میں لکھا جاچکا تھا۔

9 جنوری 2014 کی وہ ہولناک شام کرا چی کے شہری کیسے بھول سکتے ہیں کہ جب عیسیٰ نگری کے قریب ایس پی چوہدری اسلم کے قافلے پر قاتلانہ حملہ ہوا اور اس بم دھماکے کے نتیجے میں ایس پی چوہدری اسلم کے ساتھ ہمارا پیارا دوست فرحان جونیجو بھی 21 سال کی عمر میں اللہ کو پیارا ہوگیا اور ہمیں زندگی میں اداس چھوڑ کر چلا گیا ، اس واقعے کو آج چھ سال گزر گئے ہیں مگر فرحان جونیجو کی یاد آج بھی ہمیں بہت ستاتی ہے ۔

فرحان 7 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا، بڑے دل اور جگر والا تھا، جب ہی جان ہتھیلی پر رکھ کر چوہدری اسلم جیسے پولیس افسر کے ساتھ ڈیوٹی کرتا تھا۔

تازہ ترین
تازہ ترین