• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشمیر میں قید و بند کی جاری صورتحال کو ڈیڑھ سو سے زائد دن ہو گئے ہیں مگر حالات میں کسی بھی طرح کی بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے- پاکستان کی حکومت خاص طور پر وزیراعظم اور محکمہ خارجہ بار بار دنیا کی توجہ اس انسانی المیے کی جانب مبذول کرانے کی کوششیں کر رہے ہیں مگر وہ تاحال تجارتی نفع نقصان میں دلچسپی رکھنے والے ممالک کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے نظر نہیں آتے-

لے دے کے ترکی اور ملائیشیا نے کشمیریوں کی تھوڑی بہت بات کرکے ان کی دلجوئی کی کوشش کی مگر حال ہی میں ہونے والے کوالالمپور سمٹ میں پاکستان کی آخر وقت پر غیر موجودگی نے اس لمحاتی گرمجوشی کو بھی زائل کر دیا-

اب شنید ہے کہ کشمیر پر سعودی عرب کی کاوشوں سے او آئی سی کے طفیل وزرائے خارجہ کا ایک نمائندہ اجلاس اپریل میں بلایا جائے گا- حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ شاید کشمیریوں کے لیے تنکے کا سہارا لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں ہے-

گزشتہ سال 5اگست کو بھارتی حکومت کے یکطرفہ اقدامات کی وجہ سے بھارت نے کشمیر کی جداگانہ آئینی اور تہذیبی شناخت کو ختم کر دیا- اگرچہ ہندو قوم پرست بھارتی حکمراں جماعت بی جے پی روزِ اول سے اس بات کا اعلان کر چکی تھی مگر یہاں اس کو سنجیدہ نہیں لیا گیا-

بالآخر جب یہ سب کچھ ہوا تو اول تو پاکستان کے پاس اس کا مداوا کرنے کیلئے کچھ بھی نہ تھا، دوسرا حکومت اور اس کے مختلف اداروں کیلئے یہ سب کچھ اس قدر اچانک تھا کہ وہ کسی بھی قسم کا سنجیدہ ردعمل دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے-

شاید یہی وجہ ہے کہ وہ محض کشمیر میں رونما ہونے والے انسانی المیے کی بات کر پائے مگر افسوس کہ عالمی سطح پر کوئی شنوائی نہیں ہو پائی- اس لئے اب کم از کم ملکی سطح پر چہار جانب کشمیر کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا کہ کوئی سنے نہ سنے، ایک دوسرے سے بات کرکے کشمیر پر اپنے اوپر واجب ایک زبانی جمع خرچ کا صدقہ تو اتارا جا سکتا ہے-

لگ بھگ ڈیڑھ ماہ قبل وادی کشمیر سے میری آمد کے بعد اطراف میں درجن بھر کشمیر کانفرنسیں، بیسیوں جلسے اور کثرت سے اخباری بیانات نظروں سے گزرے ہیں جن میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مرغن کھانے تناول کیے جاتے ہیں اور علامتی یکجہتی کے طور پر ہاتھوں کی زنجیریں بناتے یا مکے لہراتے ہوئے مندوبین کی تصویریں جاری کی جاتی ہیں-

پچھلے ہفتے برطانیہ میں مقیم آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے قلمکار اسرار احمد راجہ کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’’کشمیر کا المیہ‘‘ موصول ہوئی-

موصوف درد دل رکھنے والے رائٹر ہیں جنھوں نے بڑے جذباتی انداز میں کشمیر میں اور کشمیر کے نام پر رونما ہونے والے المیے کو قلمبند کیا ہے- کتاب کے ابتدائیہ میں اسرار صاحب نے کمال کی آبزرویشن کی ہے جو کشمیر کی آپ بیتی کا حصہ ہے ’’کشمیر کا المیہ میرا ذاتی المیہ ہے اور میں اس کے وجود کا حصہ ہوں جو آزادی کی راہ میں کٹ رہا ہے اور مر رہا ہے-

میں اس خون کا ایک قطرہ ہوں جو جہلم اور نیلم کے پانیوں کو رنگین کر رہا ہے- میں اس آواز کی گونج ہوں جس کا نام آزادی ہے اور شاید میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں دور حاضر کے اہل علم و عقل، سیاستدان، صحافی، دانشور، محقق، مفکر، مدبر اور مال و زر کے ڈھیروں پر بیٹھے متکبر مہاجن کم عقل اور بیوقوف سمجھتے ہیں‘‘-

کشمیر پر کانفرنسوں اور بیانات کے موسم میں اسرار احمد راجہ کی یہ بات دل کو لگتی ہے ’’مسئلہ کشمیر پر لکھنے اور بولنے والوں کی کمی نہیں- سیمیناروں، مشاعروں، تقریروں، جلسوں، جلوسوں، اور ریلیوں کی رونقیں اکثر سجتی ہیں اور پھر اختتام پذیر ہو جاتی ہیں-

لیڈروں، وزیروں، مشیروں ان کے ووٹروں، سپورٹروں، ہم مشرب و ہم خیال صحافیوں، دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی تقریریں، تحریریں، تاویلیں اور تجزیے بھی اہمیت کے حامل ہیں-

اسرار راجہ آزاد کشمیر کے سیاستدانوں سے بھی گلہ کرتے نظر آتے ہیں اور خطے میں بعض پاکستانی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کےقیام کو ’’غیر فطری‘‘ سمجھ کر انہیں کشمیری معاشرے کو ’’آلودہ اور بدبودار‘‘ کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں-

کتاب کے آخر میں آپ ایک فکر انگیز پیش گوئی کرتے ہیں ’’غلامی، ذلت اور رسوائی کا دائرہ جب تک مکمل نہیں ہوگا تب تک نہ صالح قیادت سامنے آئے گی اور نہ ہی پاکستان کے حالات میں بہتری آئے گی-

نہ عدل و مساوات کا نظام فعال ہوگا اور نہ کشمیر کا المیہ نقطہ انجام پر پہنچ کر اصلاح و فلاح کی طرف لوٹ سکے گا‘‘۔

تازہ ترین